قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
آپ ان سے کہیے : جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آکے رہے [١٣] گی پھر تم اس کے ہاں لوٹائے جاؤ گے جو غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے؟
(٥) یہود اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے پیارے، ہم تنہا ہی جنت کے حقدار ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو تو پھر تم موت کی تمنا کرو لیکن یہودی اور موت کی تمنا دو متضاد باتیں ہیں یہ موت سے ڈرتے ہیں اس کے برعکس مسلمان شہادت کی تمنا کرتا ہے اور میدان جنگ میں بے دریغ لڑتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ مرنے کے بعد اسے شہادت کا مرتبہ نصیب ہوگا اور جنت نصیب ہوگی۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ الہ کے دوستوں ی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ جب انہیں جان دینے اور زندگی اور اس کی لذتوں سے دست بردار ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ لبیک کہتے ہیں اور اس طرح دوڑتے ہیں گویا بھوکوں کو غذا اور پیاسوں کو پانی کی پکار سنائی دی، پر جو جھوٹے ہیں اور اللہ کی ولایت سے محروم، انکار کردیتے ہیں اور یہ ان کے جھوٹے ہونے کی مہر ہے جوانہوں نے خود اپنے اوپر لگالی موت کی تمنا سے ہرگز یہ مقصود نہیں کہ کوئی آدمی موت کو پکارے ور اس کے لیے التجا کرے مقصود یہ تھا کہ خدا کے لیے اور اس کے کلمہ حق کے لیے ایسے کاموں میں پڑو جن میں جان دینے اپنا خون بہانے اپنے جسم کو طرح طرح کی مہلک مشقتوں میں ڈالنے اور زندگی کو عیش ونشاط سے محروم ہونے کی ضرورت ہے۔ (الہلال ١٥ جولائی ١٩١٤ ص ٥)۔