يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کی طرف محبت کی طرح ڈالتے ہو۔ حالانکہ جو حق تمہارے پاس [١] آیا ہے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں۔ وہ رسول کو اور خود تمہیں بھی اس بنا پر جلاوطن [٢] کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اب اگر تم (برائے فتح مکہ) میری راہ میں جہاد اور میری رضاجوئی کی خاطر نکلے ہو تو خفیہ [٣] طور پر انہیں دوستی کا نامہ و پیام بھیجتے ہو؟ حالانکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو میں اسے خوب جانتا [٤] ہوں۔ اور تم سے جو بھی ایسا کام کرے وہ سیدھی راہ [٥] سے بھٹک گیا
تفسیر وتشریح (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی اس سورۃ میں حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے اہل وعیال کو بچانے کے لیے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی اگر بروقت اس کو ناکام نہ کردیا جاتا تو فتح مکہ کے موقع پر بہت کشت وخون ہوجاتا۔ اس کے بعد ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت پیچیدگی پیدا کررہا تھا مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچ رہی تھیں اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان ایسے تھے جن کی بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ میں رہ گئی تھیں اب سوال یہ پیدا ہورہا تھا کہ کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج کا کیا حکم ہے؟ قرآن مجید نے اس کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ مسلمان عورتوں کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہیں اور نہ مسلمان مردوں کے لیے کافر بیویاں جائز ہیں۔ آخر میں نبی کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جوعورتیں اسلام قبول کریں ان سے بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیاجائے اور وہ آئندہ کے لیے اقرار کریں کہ وہ بھلائی کے ان تمام راستوں کا اتباع کریں گی جن کا انہیں دیا جائے گا۔ (٢) ابتدائے سورۃ میں کافروں سے قطع تعلق کا حکم دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں حضرت ابراہیم کا اسوہ ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔