قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
اللہ نے یقیناً اس عورت کی بات سن لی [١] ہے جو اپنے خاوند کے بارے میں (اے نبی) آپ سے جھگڑ رہی ہے اور اللہ کے حضور شکایت کر رہی ہے۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے اس سورۃ میں قانون ظہار کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزوہ احزاب کے بعد نازل ہوئی ہے، اور اس سورۃ میں مسلمانوں کو ان مختلف مسائل کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں جو اس وقت درپیش تھے۔ (الف) ظہار کے شرعی احکام (ب) منافقین کی روش پر گرفت (ج) آداب مجلس کی تعلیم (د) معاشرتی برائیوں سے اجتناب جو اس وقت معاشرہ میں رائج تھیں مثلا کسی کے گھر جا کر جم کربیٹھ جانا اور صاحب خانہ کی مجبوریوں کالحاظ نہ کرنا مجلس عام میں بیٹھے ہوئے سرگوشی کرنا۔ (ھ) ایک مسلم معاشرہ میں اخلاص کا معیار کیا ہے، وغیرہ۔ احادیث میں ہے کہ خولہ بنت ثعلبہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ظہار کے سلسلہ میں اپنے خاوند اوس بن صامت انصاری کی شکایت کی، اس صحابیہ کی فریاد بارگاہ الٰہی میں مسموع ہوئی اور یہ سورۃ نازل ہوئی۔ شریعت کی اصطلاح میں ظہار کے معنی ہیں اپنی بیوی کو، انت علی کظہر امی، کہنا کہ تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، یعنی تجھ سے کبھی مباشرت نہیں کروں گا، قرآن مجید نے بتایا کہ ظہار سے عورت حقیقی ماں نہیں بن جاتی اور نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہوسکتی ہے جو ماں کو حاصل ہوتی ہے۔ ظہار پر قرآن مجید نے ہلکی سی سزا تجویز کی اور وہ بھی عبادت اور نیکی کی شکل میں، جس سے لوگوں کی اصلاح ہو، یعنی رقبہ (غلام) آزاد کرنا، اگر یہ نہ کرسکے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر روزہ رکھنے کی ہمت وفرصت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادے یہ ظہار کا کفارہ ہے اس کے ادا کرنے کے بعددوبارہ عورت سے مقاربت کرسکتا ہے ظہار کے مفصل احکام کتب احادیث میں مذکور ہیں۔