لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ
تو اس کے وقوع کو کوئی جھٹلانے والا [١] نہ ہوگا
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے، علامہ سیوطی نے، الاتقان، میں حضرت عکرمہ سے ایک روایت نقل کی ہے پہلے سورۃ طہ نازل ہوئی پھر الواقعہ اور اس کے بعد الشعراء۔ حضرت عمر کے قبول اسلام کے قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ سورتیں نازل ہوچکیں تھیں اور ان کا ایمان لانا ہجرت حبشہ کے بعد پانچ نبوی میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس سورۃ میں بھی وحی، آخرت، توحید کی حقانیت کے اثبات پرزور دیا جارہا ہے شروع میں بتایا کہ قیامت کے روز انسان تین طبقات میں تقسیم ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ آیت ٥٧ تک چلا گیا ہے مولانا آزاد لکھتے ہیں ! اصحاب الجنۃ اور اصحاب النار کی ایک اور تقسیم بھی ہے جو ان دونوں جماعتوں کے متعلق قرآن مجید میں نظر آتی ہے بعض خاص حالات اور خصائض کی بنا پر انہیں، اصحاب المیمنہ، اور اصحاب المشئمہ، کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے یعنی داہنی جانب کی جماعت اور بائیں جانب کا گروہ۔ (تیسری جماعت) السابقون الاولون (کی ہے) اس سے وہی لوگ مراد ہیں جن کی نسبت سورۃ انبیاء میں فرمایا، ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (سورہ انبیاء آیت ١٠١)، مذکورہ بالا دو جماعتوں کے اعمال وخصائض کی تشریح سورۃ بلد میں ہے، نیز انہیں آگے چل کر، اصحاب الیمین، اور اصحاب الشمال کہا گیا ہے۔ اس کے بعد توحید وآخرت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں اور قرآن مجید کے متعلق کفار کے شکوک وشبہات کی تردید کی گئی ہے اور پھر موت کا منظر پیش کیا ہے جس سے کسی نفس کو تحفظ نہیں مل سکتا۔