وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ
ستارے [١] کی قسم جب وہ ڈوبنے لگے۔
تفسیر (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ہجرت حبش کے بعد ٥ نبوی میں نازل ہوئی، ابن سعد کا بیان کہ پانچ نبوی میں جب صحابہ کرام اجمعین کی ایک مختصر جماعت ہجرت کرکے حبش چلی گئی تو اسی سال رمضان المبارک میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ نے قریش کے ایک مجمع میں سورۃ نجم پڑھ کر سنائی اور کافر اور مومن سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ یہ واقعہ حبش کے مہاجرین کے پاس اس شکل میں پہنچا کہ کفار مکہ مسلمان ہوگئے ہیں اس خبر کو سن کر کچھ لوگ شوال پانچ نبوی میں مکہ میں واپس آگئے مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ ظلم وستم اسی طرح ہورہا ہے جس پر بہت سے لوگ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ یہ سورت جب قریش کے ایک مجمع میں آپ پڑھ کرسنارہے تھے تو شدت تاثیر کی وجہ سے سجدہ کے موقع پر مخالفین بھی سجدہ میں گرپڑے مگر جب انہیں ملامت ہوئی تو کہنے لگے کہ اس سورۃ میں لات، منات، اور عزی (بتوں) کا ذکر آیا ہے اور محمد کی زبان سے ہم نے یہ الفاظ بھی سنے ہیں، تلک الغرانقۃ العلی، وان شفاعتھن لترتجی۔ یہ قصہ مفسرین نے بھی نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ الفاظ شیطان نے نبی کی زبان سے پڑھ کر سنادیے تو اس پر سورۃ الحج کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں ہے، وما ارسلناک من قبلک من رسول۔۔ تا۔۔ آخر۔ مگر یہ قصہ سراسر باطل ہے وحی میں کسی طور شیطان کا دخل نہیں ہوسکتا۔