سورة آل عمران - آیت 167

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور منافقوں کو بھی۔[١٦٣] اور جب ان سے کہا گیا کہ: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا (کم از کم شہر مدینہ کا) دفاع [١٦٤] ہی کرو‘‘ تو کہنے لگے : اگر ہم لڑنا جانتے ہوتے تو ضرور تمہاری [١٦٥] پیروی کرتے۔ اس روز وہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنی زبانوں سے [١٦٦] ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔ حالانکہ جو کچھ وہ [١٦٧] چھپاتے ہیں اللہ انہیں خوب جانتا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

57: ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی برابر کی جنگ ہوتی تو ہم ضرور اس میں شریک ہوتے، لیکن یہاں تو مسلمانوں کا دشمن سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ دشمن کی تعداد تین گنے سے بھی زیادہ ہے، لہذا یہ جنگ نہیں، خود کشی ہے، اس میں ہم شامل نہیں ہوسکتے۔ 58: یعنی زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ اگر برابر کی جنگ ہوتی تو ہم ضرور شامل ہوتے، لیکن یہ صرف ایک بہانہ ہے، درحقیقت ان کے دل میں یہ ہے کہ برابر کی جنگ میں بھی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دینا۔