تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
یہ کتاب اللہ غالب، حکمت [١] والے کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔
تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ میں جنوں کے قرآن سن کرجانے کا واقعہ مذکور ہے اور حدیث وسیرت کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ١٠ بعثت کا واقعہ ہے یعنی ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا اس سے سن نزول ازخود متعین ہوجاتا ہے۔ ١٠ نبوی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں انتہائی سختی کا سال تھا قریش کا مقاطعہ کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خاندان اور اصحاب سمیت محصور ہوچکے تھے پھر جب محاصرہ ٹوٹا تو ابوطالب وفات پاگئے جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ڈھال کا کام دے رہے تھے اور اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ بھی اس جہان سے رخصت ہوگئیں ان مسلسل صدموں کی وجہ سے یہ سال گویا عام الحزن تھا۔ ایک مرتبہ آپ اس ارادے پر طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کواسلام کی دعوت دیں مکہ سے طائف کاساراسفر پیدل طے فرمایا مگر انہوں نے آپ کی بات سننے سے انکار کردیا اور کہہ دیا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ واپسی پر غندوں کو آپ کے پیچھے لگادیا جو آپ کا تعاقب کرتے آپکو پتھر مارتے اور آوازیں کستے رہے حتی کہ آپ زخموں سے چور ہوگئے۔ دل شکستہ ہو کر جب آپ قرآن المنازل میں پہنچے تو حضرت جبرائیل سامنے آئے اور کہا : اگر آپ چاہیں تو ان پر پہاڑ الٹ دیے جائیں، مگر نبی الرحمہ نے جواب دیا کہ نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے مسلمان پیدا ہوں گے۔ اس کے بعد آپ نخلہ میں جاکرٹھہرے اور وہیں جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ پیش آیا۔ الغرض ان حالات میں یہ سورۃ نازل ہوئی اس سورۃ میں کفار کو ان کی گمراہیوں کے نتائج سے خبردار کیا گیا ہے اور ان کی تردید کی ہے توحید کا تصور پیش کیا ہے رسالت کے خلاف ان کے خیالات کی تردید کی ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ شرک کی صحت میں کسی آسمانی کتاب سے دلیل پیش کرویا کوئی، علمی روایت، ہی دکھاؤ جوقابل اعتماد ذریعہ سے پہنچی ہو۔ (قرآن کہتا ہے کہ) اگر تمہیں میری تعلیم کی سچائی سے انکار ہے تو کسی مذہب کی الہامی کتاب سے ہی ثابت کردکھا کہ دین حقیقی راہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتی ہے بلکہ علم وبصیرت کے کسی قول اور روایت سے ثابت کردکھاؤ کہ جو کچھ میں بتلارہاہوں یہی پچھلی دعوتوں کی تعلیم نہیں رہی؟۔