وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ
اور کہنے لگے : کیا ہمارے الٰہ اچھے ہوئے [٥٦] یا وہ (عیٰسی)؟ وہ آپ کے سامنے یہ مثال صرف کج بحثی کی خاطر لائے ہیں۔ بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو [٥٧] قوم
(٥) گزشتہ آیات میں قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ پہلے پیغمبروں کی تعلیمات پڑھ دیکھو کہ کیا کسی نے بھی یہ حکم دیا ہے کہ خدائے رحمن کے سوادوسرے معبود کی بندگی کی جائے؟ اس پر عبداللہ بن الزبعری نے کہا کہ حضرت عیسیٰ کی بندگی کیوں کی جاتی ہے؟ کیا ہمارے معبود عیسیٰ (علیہ السلام) سے کم درجہ کے ہیں؟ آیت ٥٧ سے اسی بے ہودگی کا جواب دیا جارہا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی مثال پر بڑا شور کررہے ہیں اور جدال کے طور پر اسے پیش کررہے ہیں حالانکہ وہ اللہ کابندہ تھا اللہ نے ان پر انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے ایک نمونہ بنادیا اور انہیں وہ معجزات دیے تھے جوان سے پہلے کسی کو نہ دیے گئے تھے۔