يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اے ایمان والو! اپنے سوا کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑجاؤ۔ ان کی دشمنی ان کی زبانوں پر بے اختیار آجاتی ہے اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے [١٠٦] شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں واضح ہدایات دے دی ہیں۔ اگر تم سوچو گے (تو ان سے ضرور محتاط رہو گے)
39: مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے جو قبیلے آباد تھے، زمانہ دراز سے یہودیوں کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات چلے آتے تھے۔ جب اوس اور خزرج کے لوگ مسلمان ہوگئے تو وہ ان یہودیوں کے ساتھ اپنی دوستی نبھاتے رہے، مگر یہودیوں کا حال یہ تھا کہ ظاہر میں تو وہ بھی دوستانہ انداز میں ملتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ یہ بھی ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوگئے ہیں، لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مسلمان ان کی دوستی پر بھروسہ کرتے ہوئے سادہ لوحی میں انہیں مسلمانوں کی کوئی راز کی بات بھی بتا دیتے تھے۔ اس آیت کریمہ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ان پر بھروسہ نہ کریں اور انہیں راز دار بنانے سے مکمل پرہیز کریں۔