وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِّنَ الْأَخْيَارِ
اور اسمٰعیل، الیسع [٥٤] اور ذوالکفل کا بھی ذکر کیجئے۔ ان میں سے ہر ایک نیک تھا۔
(٧) انبیائے کرام کے سلسلے میں حضرت الیسع اور ذوالکفل کا نام مذکور ہے حضرت الیسع بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء سے تھے دریائے اردن کے کنارے ایک مقام ابیل محولہ کے رہنے والے تھے اور حضرت الیاس کے پروردہ تھے تقریبا بارہ سال حضرت الیاس کے زیرتربیت رہے پھر جب ان کو اللہ نے اٹھالیا تو یہ ان کی جگہ مقرر ہوئے شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست جب شرک وبت پرستی اور خلاقی برائیوں میں غرق ہوگئی تو انہوں نے ایک بادشاہ کی مدد سے بت پرستی کا خاتمہ کیا لیکن حضرت الیسع کی وفات کے بعد وہی برائیاں پھر لوٹ آئیں۔ علامہ آلوسی، روح المعانی، میں لکھتے ہیں کہ یہودیوں کایہ دعوی کہ حزقیال نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری کے دوران میں ٥٧٩ ق م کے زمانہ نبوت سے سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت سرانجام دیتے رہے۔ مولانا ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ، تفہیم القرآن، میں لکھتے ہیں کہ بائبل کے صحیفہ حزقی اہل دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعی صابر وصالح تھے جیسا کہ قرآن مجید نے ان کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نوآبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کردی تھی جس کا نام، تل ابیب، تھا اسی مقام پر ٥٩٤، ق م میں حزقی ایل نبوت سے سرفراز ہوئے اور مسلسل بائیس سال تک تبلیغی خدمات سرانجام دیتے رہے بائبل کا صحیفہ حزقی ایل پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔