بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ
بلکہ یہ کافر [١] ہی تکبر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اعلان دعوت کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی ہے جوکہ تقریبا ٤ بعثت کے بعد ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کے مرض الموت کے زمانہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی جو کہ، ١٠، ١١، بعثت ہے۔ اس کاموضوع بھی توحید ونبوت ہے اور ضمنا آخرت کا ذکرب ھی آگیا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت توحید کا آغاز فرمایا اور برملاطور پر بتوں کی مذمت شروع کی توقریش کے سردار جمع ہو کر سردار ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے بتوں کی مذمت نہ کرے اور ہمیں ہماری حالت پرچھوڑ دے تو ہم اسے اس کے دین پر چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے کچھ تعارض نہیں کریں گے اس پر ابوطالب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا اور سرداران قریش کا فیصلہ سنایا اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، چچاجان میں تو ان کے سامنے ایساکلمہ پیش کرتا ہوں اگر یہ اسے مان لیں تو عربان کا تابع فرمان اور عجم ان کا باج گزار ہوجائے۔ اس پر انہوں نے کہ اایک نہیں ہم ایسے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں مگر بتاؤ توسہی کہ وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، لا الہ الا اللہ۔ یہ سن کر وہ سب یکبارگی اٹھ کرکھڑے ہوگئے اور وہ باتیں کہنے لگے جن کا اس ابتدائی سورۃ میں ذکر ہے۔