مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
روز ِ جزا [٨] و سزا کا مالک [٩] ہے
(آیت 2 کی تفسیر کا بقیہ حصہ): ”إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیہَا مِنْ کُلِّ دَابَّۃٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ : اور (دیکھو) تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات، رحمت والی اور اپنی رحمت کی بخشایشوں سے ہمیشہ فیض یاب کرنے والی ! بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں، اور کشتی میں جو انسان کی کاربراریوں کے لیے سمندر میں چلتی ہے اور اور بارش میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی (آبپاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دیے ہیں نیز ہواؤں کے (مختلف جانب) پھیرنے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دیے ہیں نیز ہواؤں کے (مختلف جانب) پھیرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے رکھے ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے (اللہ کی ہستی اور اس کے قوانین فضل و رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (البقرہ : 163۔164) اسی طرح ان مقامات کا مطالعہ کرو جہاں خصوصیت کے ساتھ جمال فطرت سے استدلال کیا ہے : ”أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (٦) وَالأرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیجٍ (٧) تَبْصِرَۃً وَذِکْرَی لِکُلِّ عَبْدٍ مُنِیبٍ : کیا کبھی ان لوگوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور کس طرح اس کے منظر میں خوشنمائی پیدا کردی ہے اور پھر یہ کہ کہیں بھی اس میں شگاف نہیں؟ اور اسی اور اسی طرح زمین کو دیکھو کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا، اور پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگا دیں؟ ہر اس بندے کے لیے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ اس میں غور کرنے کی بات اور نصیحت کی روشنی ہے“ (ق :6۔8) ” ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزیناھا للنظرین : اور (دیکھو) ہم نے آسمان میں (ستاروں کی گردش کے لیے) برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے ان میں خوشنمائی پیدا کردی“ (15:، 16)۔ ” ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح : اور (دیکھو) ہم نے دنیا کے آسمان (یعنی کرہ ارضی کی فضا) کو ستاروں کی قندیلوں سے خوش منظر بنا دیا“ ” ولکم فیہا جمال حین تریحون و حین تسرحون : اور (دیکھو) تمہارے لیے چارپایوں کے منظر میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور جب صبح لے جاتے ہو ایک طرح کا حسن اور نظر افروزی ہے“۔ موزونیت و تناسب : جس چیز کو ہم ” جمال“ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ موزونیت اور تناسب۔ یہی موزونیت اور تناسب ہے جو بناؤ اور خوبی کے تمام مظاہر کی اصل ہے۔ ” وانبتنا فیہا من کل شیء موزون : اور (دیکھو) ہم نے زمین میں ہر ایک چیز موزونیت اور تناسب رکھنے والی اگائی ہے“ تسویہ : اسی معنی میں قرآن ” تسویہ“ کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے۔ ” تسویہ“ کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس طرح ٹھیک ٹھیک، درست کردینا کہ اس کی ہر بات خوبی و مناسبت کے ساتھ ہو۔ ” الذی خلق فسوی۔ والذی قدر فھدی : وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی پھر ٹھیک ٹھیک خوبی و مناسبت کے ساتھ درست کردی۔ اور وہ جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا پھر اس پر (زندگی و معیشت) کی راہ کھول دی“ (الاعلی : 2) ” الذی خلقک فسوک فعدلک۔ فی ای صورۃ ما شاء رکبک : وہ پروردگار جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھیک درست کردیا پھر (تمہارے ظاہری و باطنی قوی میں) اعتدال و تناسب ملحوظ رکھا پھر جیسی صورت بنانی چاہی اسی کے مطابق ترکیب دے دی“۔ اتقان : یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے اتقان سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یعنی کائنات ہستی کی ہر چیز کا درستگی و استواری کے ساتھ ہونا کہ کہیں بھی اس میں خلل، نقصان، بے ڈھنگا پن، اونچ نیچ اور ناہمواری نظر نہیں آسکتی : ” صنع اللہ الذی اتقن کل شیء : یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز درستگی و استواری کے ساتھ بنائی“ (القصص :88) ” ماتری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ھل تری من فطور۔ ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا وھو حسیر : تم الرحمن کی بناوٹ میں (رحمن کی بناوٹ میں کیونکہ یہ اس کی رحمت ہی کا ظہور ہے) کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں پاؤ گے (اچھا نظر اٹھاؤ اور اس نماش گاہ صنعت کا مطالعہ کرو) ایک بار نہیں بار بار دیکھو۔ کیا تمہیں کہیں کوئی دراڑ دکھائی دیتی ہے؟ تم اسی طرح یکے بعد دیگرے دیکھتے رہو تمہاری نگاہ اٹھے گی اور عاجز و درماندہ ہو کر واپس آجائے گی لیکن کوئی نقص نہ نکال سکے گی“ (ملک : 3) ” فی خلق الرحمن“ فرمایا۔ یعنی یہ خوبی و اتقان اس لیے ہے کہ رحمت رکھنے والے کی کاریگری ہے اور رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ حسن و خوبی ہو، اتقان و کمال ہو، نقص اور ناہمواری نہ ہو ! رحمت سے معاد پر استدلال : خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات کی طرح آخرت کی زندگی پر بھی وہ رحمت سے استدلال کرتا ہے۔ اگر رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ دنیا میں اس خوبی و کمال کے ساتھ زندگی کا ظہور ہو تو کیونکر یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد اس کا فیضان ختم ہوجائے اور خزانہ رحمت میں انسان کی زندگی اور بناؤ کے لیے کچھ باقی نہ رہے؟ ”أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ قَادِرٌ عَلَی أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ وَجَعَلَ لَہُمْ أَجَلا لا رَیْبَ فِیہِ فَأَبَی الظَّالِمُونَ إِلا کُفُورًا : کیا ان لوگوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کیے ہیں یقینا اس بات سے عاجز نہیں ہوسکتا کہ ان جیسے (آدمی دوبارہ) پیدا کردے اور یہ کہ ان کے لیے اس نے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہے جس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں؟ ( افسوس ان کی شقاوت پر !) اس پر بھی ان ظالموں نے اپنے لیے کوئی راہ پسند نہ کی مگر حقیقت سے انکار کرنے کی ! (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو اس حالت میں یقنا تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روکے رکھتے (لیکن یہ اللہ ہے جس کے خزائن رحمت نہ تو کبھی ختم ہوسکتے ہیں نہ اس کی بخشایش رحمت کی کوئی انتہا ہے)۔ رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر استدلال : اس طرح وہ رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جو رحمت کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں افادۂ فیضان کا سرچمہ ہے کیونکر ممکن تھا کہ انسان کی معنوی ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی فیضان نہ ہوتا اور وہ انسان کو نقصان و ہلاکت کے لیے چھوڑ دیتی؟ اگر تم دس گوشوں میں فیضان رحمت محسوس کر رہے ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ گیارہویں گوشے میں اس سے انکار کردو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جابجا نزول وحی، ترسیل کتب، اور بعثت انبیا کو رحمت سے تعبیر کیا ہے : ” وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ثُمَّ لا تَجِدُ لَکَ بِہِ عَلَیْنَا وَکِیلا (٨٦)إِلا رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ إِنَّ فَضْلَہُ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیرًا : اور (اے پیغمبر ! اگر ہم چاہیں تو جو کچھ تم پر وحی کے ذریعہ بھیجا گیا ہے اسے اٹھا لے جائیں (یعنی سلسلہ تنزیل و وحی باقی نہ رہے) اور پھر تمہیں کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے۔ لیکن یہ جو سلسلہ وحی جاری ہے تو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمہارے پروردگار کی رحمت ہے اور یقین کرو تم پر اس کا بڑا ہی فضل ہے“ (اسراء :86۔87) ” تنزیل العزیز الرحیم۔ لتنذر قوما ما انذر آباءھم فھم غافلون : (یہ قرآن) عزیز و رحیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ ان لوگوں کو جن کے آباء و اجداد (کسی پیغمبر کی زبانی) متنبہ نہیں کیے گئے ہیں اور اس لیے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں تم متنبہ کرو“ (یس :5۔6) تورات و انجیل اور قرآن کی نسبت جابجا تصریح کی کہ ان کا نزول رحمت ہے۔ ” ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما ورحمۃ: اور اس سے پہلے (یعنی قرآن سے پہلے) موسیٰ کی کتاب ( امت کے لیے) پیشوا اور رحمت“ ” یایہا الناس قد جاءتکم موعظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی ورحمۃ للمومنین۔ قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون : اے افراد نسل انسانی ! یقینا یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے موعظت ہے جو تمہارے لیے آگئی ہے اور ان تمام بیماریوں کے لیے جو انسان کے دل کی بیماریاں ہیں نسخہ شفا ہے اور رہنمائی اور رحمت ہے ایمان رکھنے والوں کے لیے (اے پیغمبر ان لوگوں سے) کہہ دو کہ یہ جو کچھ ہے اللہ کے فض (رح) اور رحإت سے ہے۔ پس چاہیے کہ (اپجنی فیضیابی) پر خوش ہو۔ یہ (اپنی برکتوں میں) ان تمام چیزوں سے بہتر جنہیں تم (زندگی کی کامرانیوں کے لیے) فراہم کرتے ہو : ” ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃ لقوم یوقنون : یہ (قراان) لوگوں کے لیے واضح دلیلوں کی روشنی ہے، اور ہدایت و رحمت ہے، یقین رکھنے والوں کے لیے“ (45:، 20) ”أَوَلَمْ یَکْفِہِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْہِمْ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَرَحْمَۃً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ : کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں (برابر) سنائی جا رہی ہے؟ جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، بلاشبہ ان کے لیے اس (نشانی) میں سر تا سر رحمت اور فہم و بصیرت ہے“ (29:، 51) چنانچہ اسی بنا پر اس نے داعی اسلام کے ظہور کو بھی فیضان رحمت سے تعبیر کیا ہے ” وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین : (اے پیغمبر !) پم نے تمہیں نہیں نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام جہانوں کے لیے ہماری رحمت کا ظہور ہے“ (21:، 107) انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر ” رحمت“ سے استدلال اور ” بقائے انفع“: اسی طرح وہ ” رحمت“ کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس ” رحمت“ کا مقتضا یہ ہوا کہ دنیا میں ” بقائے انفع“ : اسی طرح وہ ” رحمت“ کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس ” رحمت“ کا مقتضا یہ ہوا کہ دنیا میں ” بقائے انفع“ کا قانون نافذ ہے یعنی وہی چیز باقی رہتی ہے جو نافع ہوتی ہے کیونکر ممکن تھا کہ وہ انسانی اعمال کی طرف سے غافل ہوجاتی اور نافع اور غیر نافع اعمال میں امتیاز نہ کرتی؟ پس مادیات کی طرح معنویات میں بھی یہ قانون نفاذ ہے اور ٹھیک ٹھیک اسی طرح اپنے احکام و نتائج رکھتا ہے جس طرح مادیات میں تم دیکھ رہے ہو۔ حق اور باطل : اس سلسلہ میں وہ دو لفظ استعمال کرتا ہے ” حق“ اور ” باطل“۔ سورۃ رعد میں جہاں قانون ” بقائے انفع“ کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس بیان سے مقصود ” حق“ اور ” باطل“ کی حقیقت واضح کرنی ہے۔ ” کذلک یضرب اللہ الحق والباطل : اس طرح اللہ ” حق“ اور ” باطل“ کی ایک مثال بیان کرتا ہے“۔ ساتھ ہی مزید تصریح کردی : ” لِلَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّہِمُ الْحُسْنَی وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَہُ لَوْ أَنَّ لَہُمْ مَا فِی الأرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لافْتَدَوْا بِہِ أُولَئِکَ لَہُمْ سُوءُ الْحِسَابِ : پس (دیکھو) میل کچیل سے جو جھاگ اٹھتا ہے وہ رائگاں جاتا ہے کیونکہ اس میں انسان کے لیے نفع نہ تھا لیکن جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ (اپنے قوانین عمل کی) مثالیں دیتا ہے۔ (سو) جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا ان کے لیے خوبی و بہتری ہے اور جن لوگوں نے قبول نہ کیا ان کے لیے (اپنے اعمال بد کا) سختی کے ساتھ حساب دینا ہے اور اگر ان لوگوں کے قبضے میں وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا ہی اس پر اور بڑھا دیں اور بدلہ میں دے کر (نتائج عمل سے) بچنا چاہیں جب بھی نہ بچ سکیں گے“۔ عربی میں ” حق“ کا خاصہ ثبوت اور قیام ہے۔ یعنی جو بات ثابت ہو، اٹل ہو، امٹ ہو، اسے حق کہیں گے۔ ” باطل“ ٹھیک ٹھیک اس کا نقیض ہے۔ ایسی چیز جس میں ثبات و قیام نہ ہو۔ ٹل جانے والی، مٹ جانے والی، باقی نہ رہنے والی۔ چنانچہ خود قرآن میں جابجا ہے۔ ” لیحق الحق ویبطل الباطل“ قانون ” قضا بالحق“: وہ کہتا ہے جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی رہتی ہے۔ جو چیز نافع ہوتی ہے باقی رکھتی ہے جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کردیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک ایسا ہی عمل معنویات میں بھی جا ری ہے۔ جو عمل حق ہوگا قائم اور ثابت رہے گا جو باطل ہوگا مٹ جائے اور جب کبھی حق اور باطل متقابل ہوں گے تو بقا حق کے لیے ہوگی نہ کہ باطل کے لیے۔ وہ اسے ” قضا بالحق“ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی فطرت کا فیصلہ حق جو باطل کے لیے نہیں ہو سکتا“ (فاذا جاء امر اللہ قضی بالحق وحسر ھنالک المبطلون : پھر جو وہ وقت آگیا کہ حکم الٰہی صادر ہو تو (خدا کا) فیصلہ حق نافذ ہوگیا اور اس وقت ان لوگوں کے لیے جو برسر باطل تھے، تباہی ہوئی“۔ اس نے اس حقیقت کی تعبیر کے لیے ” حق“ اور ” باطل“ کا لفظ اختیار کر کے مجر تعبیر ہی سے حقیقت کی نوعیت واضح کردی۔ کیونکہ حق اسی چیز کو کہتے ہیں جو ثابت و قائم ہو اور باطل کے معنی ہی یہ ہیں کہ مٹ جانا، قائم و باقی نہ رہنا۔ پس جب وہ کسی بات کے لیے کہتا ہے کہ یہ ” حق“ ہے تو یہ صرف دعوی ہی نہیں ہوتا بلکہ دعوے کے ساتھ اس کے جانچنے کا ایک معیار بھی پیش کردیتا ہے۔ یہ بات حق ہے۔ یعنی نہ ٹلنے والی نہ مٹنے والی بات ہے۔ یہ بات باطل ہے۔ یعنی نہ ٹک سکنے والی، مٹ جانے والی بات ہے۔ پس جو بات اٹل ہوگی اس کا اٹل ہونا کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ جو بات مٹ جانے والی ہے اس کا مٹنا ہر آنکھ دیکھ لے گی۔ اللہ کی صفت بھی ” الحق“ ہے : چنانچہ وہ اللہ کی نسبت بھی ” الحق“ کی صفت استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی ہستی سے بڑھ کر اور کون سی حقیقت ہے جو ثابت اور اٹل ہوسکتی ہے؟ ” فذلکم اللہ ربکم الحق : پس یہ ہے تمہارا پروردگار، الحق“۔ ” فتعالی اللہ الملک الحق : پس کیا ہی بلند درجہ ہے اللہ کا، الملک (یعنی فرمنروا) الحق (یعنی ثابت) “۔ وحی و تنزیل بھی ” الحق“ ہے : وحی و تنزیل کو بھی وہ ” الحق“ کہتا ہے کیونکہ وہ دنیا کی ایک قائم و ثابت حقیقت ہے۔ جن قوتوں نے اسے مٹانا چاہا تھا، وہ خود مٹ گئیں حتی کہ آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں لیکن وحی و تنزیل کی حقیقت ہمیشہ قائم رہی اور آج تک قائم ہے ” قل یا ایہا الناس قد جاءکم الحق من ربکم فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیہا و ما انا علیکم بوکیل، واتبع ما یوحی الیک واصبر حتی یحکم اللہ و ھو خیر الحاکمین : (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ تمہارے پروردگار کی طرف سے وہ چیز تمہارے لیے آگئی جو ” حق“ ہے۔ پس اب جس کسی نے سیدھی راہ اختیار کی تو یہ راست روی اسی کی بھلائی کے لیے ہے اور جس نے گمراہی اختیار کی تو اس کی گمراہی کا نقصان بھی اسی کے لیے ہے اور میرا کام تو صرف راہ حق دکھلا دینا ہے) میں تم پر نگہبان مقرر نہیں کیا گیا ہوں (کہ تم کو پکڑ کے زبردستی راہ پر لگا دوں)۔ اور (اے پیغمبر !) جو کچھ تم پر وحی کی گئی ہے اس کے مطابق چلو اور صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں بہتر فیصلہ کرنے والا ہے“۔ ً” وبالحق انزلناہ وبالحق نزل“ اور (اے پیغمبر ! ہماری طرف سے اس کا (یعنی قرآن کا) نازل ہونا حق ہے اور وہ حق ہی کے ساتھ نازل بھی ہوا ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں ” الحق“: اسی طرح جب وہ علامت تعریف کے ساتھ کسی بات کا ” الح“ کہتا ہے تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اکثر حالتوں میں صرف ” الحق“: اسی طرح جب وہ علامت تعریف کے ساتھ کسی بات کو ” الحق“ کہتا ہے تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اکثر حالتوں میں صرف ” الحق“ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اگرچہ فطرت کائنات کا یہ قانون ہے کہ وہ حق و باطل کے نزاع میں ” حق“ ہی کو باقی رکھتی ہے تو کسی بات کے امر حق ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ ” حق“ ہے۔ یعنی باقی و قائم رہنے والی حقیقت ہے۔ اس کا بقا و قیامت خود اپنی حقیقت کا اعلان کردے گا۔ نزاع حق و باطل : یہ جو قرآن جا بجا حق اور باطل کی نزاع کا ذکر کرتا ہے اور پھر بطور اصل اور قاعدہ کے اس پر زور دیتا ہے کہ کامیابی حق کے لیے ہے اور ہزیمت و خسران باطل کے لیے تو یہ تمام مقامات بھی اسی قانون ” قضاء بالحق“ کی تصریحات ہیں اور اسی حقیقت کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے : ” بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق : اور ہمارا قانون یہ ہے کہ حق باطل سے ٹکراتا ہے اور اسے پاش پاش کردیتا ہے اور اچانک ایسا ہوتا ہے کہ وہ نابود ہوگیا“۔ ” وقل جاء الحق وزھق الباط ان الباطل کان زھوقا“ اور کہہ دو حق نمودار ہوگیا اور باطل نابود وہا اور یقینا باطل نابود ہی ہونے والا تھا۔ اللہ کی شہادت : اور پھر حق صداقت کے لیے یہی اللہ کی وہ شہادت ہے جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوتی ہے اور بتا دتی ہے کہ حق کس کے ساتھ تھا۔ اور باطل کا کون پرستار تھا۔ یعنی قضاء بالحق کا قانون حق کو ثابت و قائم رکھ کر اور اس کے حریف کو محو و متلاشی کر کے حقیقت حال کا اعلان کردیتا ہے۔ ” قل کفی باللہ بینی و بینکم شہیدا یعلم ما فی السموات والارض والذین امنوا بالباطل وکفروا باللہ اولئک ہم الخاسرون : ان لوگوں سے کہہ دو، اب کسی اور رد و کد کی ضرورت نہیں۔ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۔ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے۔ پس جو لوگ حق کی جگہ باطل پر ایمان لائے ہیں اور اللہ کی صداقت کے منکر ہیں تو یقینا وہی ہیں جو تباہ ہونے والے ہیں“۔ ایک دوسرے موقع پر فیصلہ امر کے لیے اسے سب سے بڑی شہادت قرار دیا ہے۔ ” قل ای شیء اکبر شہادۃ قل اللہ شہیدا بینی و بینکم : کون سی بات سب سے بڑی گواہی ہے؟ (اے پیغمبر !) کہہ دو اللہ کی گواہی۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان (فیصلہ امر کے لیے) گواہی دینے والا ہے۔ قضاء بالحق مادیات اور معنویات کا عالمگیر قانون ہے : وہ کہتا ہے اس قانون سے تم کیونکر انکار کرسکتے ہو جبکہ زمین و آسمان کا تمام کارخانہ اسی کی کارفرمائیوں پر قائم ہے؟ اگر فطرت کائنات نقصان اور برائی چھانٹی نہ رہتی اور بقاء و قیام صرف اچھی اور خوبی ہی کے لیے نہ ہوتا تو ظاہر ہے تمام کارخانہ ہستی درہم برہم ہوجاتا۔ جب تم جسمانیات میں اس قانون فطرت کا مشاہدہ کر رہے ہو تو معنویات میں تمہیں کیوں انکار ہو؟ ” ولو اتبع الحق اھواءھم لفسدت السموات والارض ومن فیہن : اور اگر حق ان کی خواہشوں کی پیروی کرے تو یقین کرو یہ آسمان و زمین اور جو کوئی اس میں ہے سب درہم برہم ہو کر رہ جائے“۔ انتظار اور تربص : قرآن میں جہاں کہیں انتظار اور تربص پر زور دیا ہے اور کہا ہے جلدی نہ کرو انتظار کرو عنقریب حق و باطل کا فیصلہ جائے گا۔ مثلا ” قل فانتظروا انی معکم من المنتظرین“ تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہے۔ ” قضاء بالحق“ اور تدریج و امہال : لیکن کیا ” قضاء بالحق“ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر باطل عمل فوراً نابود ہوجائے اور ہر عمل حق فوراً فتح مند ہوجائے؟ قرآن کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ ایسا نہ ہو۔ جس رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ مادیاں میں تدریج و امہال کا قانون نافذ ہے اسی رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ معنویات میں بھی تدریج و امہال کا قانون کام کر رہا ہے اور عالم مادیات ہو یا معنویات، کائنات ہستی کے ہر گوشہ میں قانون فطرت ایک ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ دنیا میں کوئی انسانی جماعت اپنی بدعملیوں کے ساتھ مہلت حیات پا سکتی۔ ” ولو یعجل اللہ للناس الشر استعجالہم بالخیر لقضی الیہم اجلہم : اور جس طرح انسان فائدے کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ انسان کو سزا دینے میں جلد باز ہوتا تو (انسان کی لغزشوں خطاؤں کا یہ حال ہے کہ) کبھی کا فیصلہ ہوچکتا اور ان کا مقررہ وقت فوراً نمودار ہوجاتا“۔ ” تاجیل“۔ وہ کہتا ہے، جس طرح مادیات میں ہر حالت بتدریج نشوونما پاتی ہے اور ہر نتیجہ کے ظہور کے لیے ایک خاص مقدار ایک خاص مدت اور ایک خاص وقت مقرر کردیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح اعمال کے نتائج کے لیے بھی مقدار و اوقات کے احکام مقرر ہیں۔ اور ضروری ہے کہ ہر نتیجہ ایک خاص مدت کے بعد اور ایک خاص مقدار کی نشوونما کے بعد ظہور میں آئے۔ مثلاً فطرت کا یہ قانون ہے کہ اگر پانی آگ پر رکھا جائے گا تو وہ گرم ہو کر کھولنے لگے گا لیکن پانی کے گرم ہونے اور بالآخر کھولنے کے لیے حرارت کی ایک خاص مقدار ضروری ہے اور اس کے ظہور و تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ایک مقررہ وقت تک انتظام کیا جائے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم پانی چولھے پر رکھو اور فوراً کھولنے لگے۔ وہ یقینا کھولنے لگے گا لیکن اس وقت جب حرارت کی مقررہ مقدار بتدریج تکمیل تک پہنچ جائے گی۔ ٹھیک اسی طرح یہاں انسانی اعمال کے نتائج بھی اپنے مقررہ اوقات ہی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ جب تک اعمال کے اثرات ایک خاص مقررہ مقدار تک نہ پہنچ جائیں نتائج کے ظہور کا انتظار کیا جائے۔ اس صورت حال سے تدریج و امہال کی حالت پیدا ہوگئی اور عمل حق اور عمل باطل دونوں کے نتائج کے ظہور کے لیے تاجیل یعنی ایک معین وقت کا ٹھہراؤ ضروری ہوگیا۔ دونوں کے نتائج فوراً ظاہر نہیں ہوجائیں گے۔ اپنی مقررہ اجل یعنی مقررہ وقت ہی پر ظاہر ہوں گے۔ البتہ حق کے لیے تاجیل اس لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی فتح مند قوت نشوونما پائے اور باطل کے لیے اس لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی فنا پذیر کمزور تکمیل تک پہنچ جائیے۔ اس تاجیل کے لیے کوئی ایک ہی مقررہ مدت نہیں ہے۔ ہر حالت کا ایک خاصہ ہے اور ہر گردوپیش اپنا ایک خاص مقتضا رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک خاص حالت کے لیے مقررہ مدت کی مقدار بہت تھوڑی ہو اور ہوسکتا ہے کہ بہت زیادہ ہو۔ ” فان تولوا فقل اذنتکم علی سواء وان ادری اقریب ام بعید ما توعدون۔ انہ یعلم الجہر من القول ویعلم ما تکتمون۔ وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الی حین : پھر اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو تو ان سے کہہ دو، میں تم سب کو یکساں طور پر (حقیقت حال کی) خبر دے دی اور میں نہیں جانتا اعمال بد کے جس نتیجہ کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا وقت قریب ہے ایا بھی دیر ہے۔ جو کچھ علانیہ زبان سے کہا جاتا ہے اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو خدا کو سب کچھ معلوم ہے۔ اور مجھے معلوم، ہوسکتا ہے یہ تاخیر اس لیے ہوتا کہ تمہاری آزمائش کی جائے یا اس لیے کہ ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ اٹھانے کا (مزید) موقع دیا جائے“ قوانین فطرت کا معیار اوقات : قرآن کہتا ہے، تم اپنی اوقات شماری کے پیمانے سے قوانین فطرت کی رفتار عمل کا اندازہ نہ لگاؤ۔ فطرت کا دائرہ عمل تو اتنا وسیع ہے کہ تمہارے معیار حساب کی بڑی سے بڑی مدت اس کے لیے ایک دن کی مدت سے زیادہ نہیں : ” ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ و ان یوم عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ وکاین من قریۃ املیت لہا وھی ظالمۃ ثم اخذتہا والی المصیر : اور وہ لوگ عذاب کے لیے جلد بازی کر رہے ہیں (یعنی انکار و شرارت کی راہ سے کہتے ہیں اگر سچ مچ کو عذاب آنے والا ہے تو وہ کہاں ہے؟) سو یقین کرو خدا اپنے وعدہ میں کبھی خلاف کرنے والا نہیں لیکن بات یہ ہے کہ تمہارے پروردگار کا ایک دن ایسا ہوتا ہے جیسا تمہارے حساب کا ہزار برس۔ چنانچہ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں (عرصہ دراز تک) ڈھیل دی گئی حالانکہ وہ ظاہم تھیں پھر ( جب ظہور نتائج کا وقت آگیا تو) ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا۔ اور (ظاہر ہے کہ) لوٹ کر ہماری طرف آنا ہے“۔ استعجال بالعذاب : ان آیات میں فکر انسانی کی جس گمراہی کو ” استعجال بالعذاب“ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ صرف انہی منکریں حق کی گمراہی نہ تھی جو ظہور اسلام کے وقت اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے بلکہ ہر زمانہ میں انسان کی ایک عالمگیر کج اندیشی رہی ہے۔ وہ بسا اوقات فطرت کی اس مہلت بخشی سے فائدہ اٹھانے کی جگہ شر و فساد میں اور زیادہ نڈر اور جری ہوجاتا ہے اور کہتا ہے اگر فی الحقیقت حق و باطل کے لیے ان کے نتائج و عواقب ہیں، تو وہ نتائج کہاں ہیں؟ اور کیوں فوراً ظاہر نہیں ہوجاتے؟ قرآن جابجا منکرین حق کا یہ خیال نقل کرتا ہے اور کہتا ہے۔ اگر کائنات ہستی میں اس حقیقت اعلیٰ کا ظہور نہ ہوتا جسے ” رحمت“ کہتے ہیں تو یقینا یہ نتائج یکایک اور بیک دفعہ ظاہر ہوجاتے اور انسان اپنی بدعملیوں کے ساتھ کبھی زندگی کا سانس نہ لے سکتا لیکن یہ سارے قانونوں اور حکموں سے بھی بالاتر ” رحمت“ کا قانون ہے اور اس کا مقتضا یہی ہے کہ حق کی طرح باطل کو بھی زندگی و معیشت کی مہلتیں دے، اور توبہ و رجوع اور عفو ودرگزر کا دروازہ ہر حال میں باز رکھے۔ فطرت کائنات میں اگر یہ ” رحمت“ نہ ہوتی تو یقینا وہ جزائے عمل میں جلد باز ہوتی لیکن اس میں رحمت ہے اس لیے نہ تو اس کی مہلت بخشیوں کی کوئی حد ہے نہ اس کے عفو ودرگزر کے لیے کوئی کنارہ۔ ” ویقولون متی ھذا الوعدہ ان کنتم صدقین قل عسی ان یکون ردف لکم بعض الذی تستعجلون۔ وان ربک لذوفضل علی الناس ولکن اکثرہم لا یشکرون : اور (اے پیغمبر) یہ (حقیقت فراموش کہتے ہیں) اگر تم (نتائج ظلم و طغیان سے ڈرانے میں) سچے ہو تو وہ بات کب ہونے والی ہے؟ (اور کیوں نہیں ہوچکتی؟) ان سے کہہ دو (گھبراؤ نہیں) جس بات کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو عجب نہیں اس کا ایک حصہ بالکل قریب آگیا ہو۔ اور (اے پیغمبر !) تمہارا پروردگار انسان کے لیے بڑا ہی فضل رکھنے والا ہے (کہ ہر حال میں اصلاح و تلافی کی مہلت دیتا ہے) لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر بیشتر ایسے ہیں کہ اس کے فضل و رحمت سے فائدہ اٹھانے کی جگہ اس کی ناشکری کرتے ہیں“ ” ویستعجلونک بالعذاب ولولا اجل مسمی لجاءھم العذاب ولیاتینہم بغتۃ وھم لا یشعرون : اور یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کرتے ہیں (یعنی انکار و شرارت کی راہ سے کہتے ہیں اگر واقعی عذاب آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟) اور واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک خاص وقت نہ ٹھہرا دیا گیا ہوتا تو کب کا عذاب آچکا ہوتا اور (یقین رکھو جب وہ آئے گا تو اس طرح آئے گا کہ) یکایک ان پر آ گرے گا اور انہیں اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا !“۔ ” وما نؤخرہ الا لاجل معدود : اور (یاد رکھو) اگر ہم اس معاملہ میں تاخیر کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ ایک حساب کی ہوئی مدت کے لیے اسے تاخیر میں ڈال دیں“۔ العاقبۃ للمتقین : وہ کہتا ہے : یہاں زندگی و عمل کی مہلتیں سب کے لیے ہیں کیونکہ ” رحمت“ کا مقتضا یہی تھا۔ پس اس بات سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ نتائج اعمال کے قوانین موجود نہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ نتیجہ کی کامیابی کس کے حصے میں آتی ہے اور آخر کار کون آبرومند ہوتا ہے۔ ” قل یقوم اعملوا علی مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون من تکون لہ عاقبۃ الدار انہ لا یفلح الظالمون : (اے پیغمبر ! تم ان لوگوں سے) کہہ دو کہ دیکھو (اب میرے اور تمہارے معاملہ کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے) تم جو کچھ کر رہے ہو اپنی جگہ کیے جاؤ اور میں بھی اپنی جگہ کام میں لگا ہوں۔ عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کن ہے جس کے لیے آخر کار (کامیاب) ٹھکانا ہے۔ بلاشبہ (یہ اس کا قانون ہے کہ) ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پا سکتے“ قرآن کی وہ تمام آیات جن میں ظلم و کفر کے لیے فلاح و کامیابی کی نفی کی گئی ہے : اس موقع پر یہ قاعدہ بھی معلوم کرلینا چاہیے کہ قرآن نے جہاں کہیں ظلم و فساد اور فسق و کفر وغیرہ اعمال بد کے لیے کامیابی و فلاح کی نفی کی ہے اور نیک عملی کے لیے فتح مندی و کامرانی کا اثبات کیا ہے ان تمام مقامات میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً 1۔ انہ لا یفلح الظالمون (6:، 21)۔ ” تحقیق وہ ظالموں کو فلاح نہیں دیتا“ 2۔ انہ لایفلح المجرمون (10:، 17) ” بے شک وہ مجرموں کو کامیابی نہ دے گا“ 3۔ انہ لا یفلح الکافرون (23:، 117) ” حقیقتا وہ کافروں کو کامیاب نہیں کرتا“ 4۔ لایصلح عمل المفسدین (10:، 81) ” ہاں وہ فسادیوں کی اصلاح نہیں فرماتا“ 5۔ ان اللہ لا یہدی القوم الکافرین (9: 37) ” تحقیق اللہ منکر قوم کو ہدایت نہیں دیتا“ 6۔ واللہ لا یہدی القوم الظالمین (3:، 37) ” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دکھلاتا“۔ وغیرہا من الآیات۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں دیتا۔ یعنی اس کا قانون ہے کہ ظلم کے لیے کامیابی و فلاح نہیں ہوتی۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں دیتا۔ یعنی اس کا قانون یہی ہے کہ ظلم کرنے والوں پر کامیابی و سعادت کی راہ نہیں کھلتی۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ارشاد و ہدایت کا دروازہ ان پر بند کردیتا ہے۔ اور وہ گمراہی و کوری کی زنگی پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ قرآن کے مفسروں نے ان مقامات کا ترجمہ غور وفکر کے ساتھ نہیں کیا اس لیے مطالب اپنی اصلی شکل میں واضح نہ ہوسکے۔ تمتع : اور پھر اصطلاح قرآنی میں یہی وہ تمتع ہے۔ یعنی زندگی سے فائدہ اٹھانے کی مہلت جس کا وہ بار بار ذکر کرتا ہے اور جو یکساں طور پر سب کو دی گئی ہے : ” بل متعنا ھؤلاء واباءھم حتی طال علیہم العمر : بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو اور ان کے آباء واجداد کو مہلت حیات سے بہرہ مند ہونے کے مواقع دیے یہاں تک کہ (خوشحالی کی) ان پر بڑی بڑی عمریں گزر گئیں“ اسی طرح وہ جابجا ” متعناہم الی حین (10:، 98)، ’ متاع الی حین“ (36:، 44)، ” فتمتعوا فسوف تعلمون“ (16:، 55) وغیر تعبیرات سے بھی اسی حقیقت پر زور دیتا ہے۔ قضاء بالحق اور اقوام و جماعات : اسی طرح وہ قانون قضاء بالحق کو جماعتوں اور قوموں کے عروج و زوال پر بھی منطبق کرتا ہے اور کہتا ہے : جس طرح فطرت کا قانون انتخاب، افراد و اجسام میں جاری ہے اسی طرح اقوام و جماعات میں بھی جاری ہے۔ جس طرح فطرت نافع اشیاء کو باقی رکھتی ہے غیر نافع کو چھانٹ دیتی ہے ٹھیک اسی طرح جماعتوں میں بھی صرف اسی جماعت کے لیے بقا ہوتی ہے جس میں دنیا کے لیے نفع ہو۔ جو جماعت غیر نافع ہوجاتی ہے وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے یہ اس کی ” رحمت“ ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں انسانی ظلم وطغیان کے لیے کوئی روک تھام نظر نہ آتی۔ ” ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض ولکن اللہ ذو فضل علی العالمین : اور (دیکھو) اگر اللہ (نے جماعتوں اور قوموں میں باہم دگر تزاحم پیدا نہ کردیا ہوتا اور وہ) بعض آدمیوں کے ذریعے بعض آدمیوں کو راہ سے ہٹاتا نہ رہتا تو یقینا زمین میں خرابی پھیل جاتی لیکن اللہ کائنات کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے۔ ایک دوسرے موقع پر یہی حقیقت ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے : ” الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیرًا وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ : اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ اللہ بعض جماعتوں کے ذریعے بعض جماعتوں کو ہٹاتا رہتا تو (یقین کرو دنیا میں انسان کے ظلم و فساد کے لیے کوئی روک باقی نہ رہتی اور) یہ تمام خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اس کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم ہو کر رہ جاتیں“۔ قضاء بالحق کے اجتماع نفاذ میں تدریج وامہال اور تاجیل ہے : لیکن وہ کہتا ہے جس طرح فطرت کائنات کے تمام کاموں میں تدریج و امال کا قانون کام کر رہا ہے اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے معاملہ میں بھی وہ جو کچھ کرتی ہے بتدریج کرتی ہے اور اصلاح حال اور رجوع وانابت کا دروازہ آخر وقت تک کھلا رکھتی ہے۔ کیونکہ رحمت کا مقتضا یہی ہے۔ ” وَقَطَّعْنَاہُمْ فِی الأرْضِ أُمَمًا مِنْہُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْہُمْ دُونَ ذَلِکَ وَبَلَوْنَاہُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ : اور ہم نے ایسا کیا کہ ان کے لیے الگ الگ گروہ زمین میں پھیل گئے۔ ان میں سے بعض تو نیک عمل تھے بعض دوسری طرح کے۔ پھر ہم نے انہیں اچھائیوں اور برائیوں دونوں طرح کی حالتوں سے آزمایا تاکہ نافرمانی سے باز آجائیں“۔ جس طرح اجسام کے ہر تغیر کے لیے فطرت نے اسباب و علل کی ایک خاص مقدار اور مدت مقرر کردی ہے اسی طرح اقوام کے زوال و ہلاکت کے لیے بھی موجبات ہلاکت کی ایک خاص مقدار اور مدت مقرر ہے اور یہ ان کی ” اجل“ ہے۔ جب تک یہ اجل نہیں آچکتی قانون الٰہی یکے بعد دیگرے تنبہ واعتبار کی مہلتیں دیتا رہتا ہے۔” اولایرون انہم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتین ثم لا یتوبون ولا ھم یذکرون : کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ان پر کوئی برس ایسا نہیں گزرتا کہ ہم انہیں ایک دو مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائشوں میں نہ ڈالتے ہو (یعنی ان کے اعمال بد کے نتائج پیش نہ آتے ہوں) پھر بھی نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ حالات سے نصیحت پکڑتے ہیں !“ لیکن اگر تنبہ و اعتبار کی یہ تمام مہلتیں رائگاں گئیں اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر فیصلہ امر کا آخری وقت نمودار ہوجاتا ہے اور جب وہ وقت آجائے تو پھر یہ فطرت کا آخری، اٹل اور بے پناہ فیصلہ ہے۔ نہ تو اس میں ایک لمحہ کے لیے تاخیر ہو سکتی ہے نہ یہ اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ پہلے آسکتا ہے۔ ” ولکل امۃ اجل فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولایستقدمون : اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ایک مقررہ وقت ہے۔ سو جب ان کا مقررہ وقت آچکتا ہے تو اس سے نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں“ ” وما اھلکنا من قریۃ الا ولھا کتب معلوم۔ ما تسبق من امۃ اجلہا و ما یستاخرون : اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون کے مطابق ایک مقررہ میعاد اس کے لیے موجود تھی۔ کوئی امت نہ تو اپنے مقررہ وقت سے آگے بڑھ سکتی ہے، نہ پیچھے رہ سکتی ہے“۔ اسی طرح بقائے انفع اور قضاء بالحق کا قانون پچھلی قوم کو چھانٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ ایک دوسری قوم لا کھڑی کرتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ” رحمت“ کا مقتضا یہی ہے۔ ” ذَلِکَ أَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَہْلُہَا غَافِلُونَ (١٣١) وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ (١٣٢) وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَۃِ إِنْ یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا أَنْشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ آخَرِینَ (١٣٣): یہ (تبلیغ و ہدایت کا تمام سلسلہ) اس لیے ہے کہ تمہارے پروردگار کا یہ شیوہ نہیں کہ بستیوں کو ظلم و ستم سے ہلاک کر ڈالے اور ان کے بسنے والے حقیقت حال سے بے خبر ہوں (اس کا قانون تو یہ ہے کہ) جیسا کچھ جس کا عمل ہے اسی کے مطابق اس کا ایک درجہ ہے (اور اسی درجہ کے مطابق اچھے برے نتائج ظاہر ہوتے ہیں) اور یاد رکھو جیسے کچھ لوگوں کے اعمال ہیں تمہارا پروردگار ان سے بے خبر نہیں ہے ! تمہارا پروردگار رحمت ولاا اور بے نیاز ہے۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں راہ سے ہٹٓ دے اور تمہارے بعد جسے چاہے تمہارا جانشین بنا دے۔ اسی طرح جس طرح ایک دوسری قوم کی نسل سے تمہیں اوروں کا جانشین بنا دیا ہے“ انفرادی زندگی اور مجازات دنیوی : اسی طرح وہ کہتا ہے : یہ بات کہ انفرادی زندگی کے اعمال کی جزا دنیوی زندگی سے تعلق نہیں رکھتی۔ آخرت پر اٹھا رکھی گئی ہے اور دنیا میں نیک و بد سب کے لیے یکساں طور پر مہلت حیان اور فیضان معیشت ہے۔ اسی حقیقت کا نتیجہ ہے کہ یہاں ” رحمت“ کی کارفرمائی ہے۔ ” رحمت“ کا مقتضا یہی تھا کہ اس کے فیضان و بخشش میں کسی طرح کا امتیاز نہ ہو اور مہلت حیات سب کو پوری طرح ملے اس نے انسان کی انفرادی زندگی کے دو حصے کردیے۔ ایک حصہ دنیوی زندگی کا ہے، اور سرتا سر مہلت ہے۔ دوسرا حصہ مرنے کے بعد کا ہے اور جزا کا معاملہ اسی سے تعلق رکھتا ہے۔ ” وربک الغفور ذو الرحمۃ لو یواخذہم بما کسبو لعجل لہم العذاب بل لہم موعد لن یجدو من دونہ موئلا : اور (اے پیغمبر ! یقین کرو) تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ ان لوگوں سے ان کے اعمال کے مطابق مواخذہ کرتا تو فوراً عذاب نازل ہوجاتا۔ لیکن ان کے لیے ایک میعاد مقرر کردی گئی ہے اور جب وہ نمودار ہوگی تو اس سے بچنے کے لیے کوئی پناہ کی جگہ انہیں نہیں ملے گی“۔ ” ھو الذی خلقکم من طین ثم قضی اجلا واجل مسمی عندہ : وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری زندگی کے لیے ایک وقت غھہرا دیا اور اسی طرح اس کے پاس ایک اور بھی ٹھہرائی ہوئی میعاد ہے ! (یعنی قیامت کا دن) “۔ معنوی قوانین کی مہلت بخشی اور توبہ و انابت : وہ کہتا ہے : جس طرح عالم اجسام میں تم دیکھتے ہو کہ فطرت نے ہر کمزوری و فساد کے لیے ایک لازمی نتیجہ ٹھہرا دیا ہے لیکن پھر بھی اصلاح حال کا دروازہ بند نہیں کرتی اور مہلتوں پر مہلتیں دیتی رہتی ہے۔ نیز اگر بروقت اصلاح ظہور میں آجائے، تو اسے قبول کرلیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک اسی طرح یہاں بھی توبہ و انابت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ کوئی بد عملی، کوئی گناہ، کوئی جرم، کوئی فساد ہو اور نوعیت میں کتنا ہی سخت اور مقدار میں کتنا ہی عظیم ہو لیکن جونہی توبہ و انابت کا احساس انسان کے اندر جنبش میں آتا ہے تو رحمت الٰہی قبولیت کا دروازہ معاً کھول دیتی ہے اور اشک ندامت کا ایک قطرہ بد عملیوں اور گناہوں کے بے شمار داغ دھبے اس طرح دھو دیتا ہے گویا اس کے دامن عمل پر کوئی دھبہ لگا ہی نہ تھا۔ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ ”إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا : ہاں مگر جس کسی نے توبہ کی، ایمان لایا اور آئندہ کے لیے نیک عملی اختیار کی تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے ! “ رحمت الٰہی اور مغفرت وبخشش کی وسعت و فراوانی ! اس بارے میں قرآن نے رحمت الٰہی کی وسعت اور اس کی مغفرت و بخشش کی فراوانی کا جو نقشہ کھینا ہے اس کی کوئی حد و انتہا نہیں ہے۔ کتنے ہی گناہ ہوں، کتنے ہی سخت گناہ ہوں، کتنی ہی مدت کے گناہ ہوں لیکن ہر اس انسان کے لیے جو اس کے دروازہ رحمت پر دستک دے رحمت و قبولیت کے سوا کوئی صدا نہیں ہوسکتی ! ” قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (٥٣): اے میرے بندو ! جنہوں نے (بدعملیاں کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (تمہاری بدعملیاں کتنی ہی سخت اور کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقینا اللہ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا۔ یقینا وہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت رکھنے والا ہے ! اسلامی عقائد کا دینی تصور اور ” رحمت“: اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے انسان کے لیے دینی عقائد و اعمال کا جو تصور قائم کیا ہے اس کی بنیاد بھی تمام تر رحمت و محبت ہی پر رکھی ہے کیونکہ وہ انسان کی روحانی زندگی کو کائنات فطرت کے عالمگیر کارخانہ سے کوئی الگ اور غیر متعلق چیز قرار نہیں دیتا۔ بلکہ اسی کا ایک مربوط گوشہ قرار دیتا ہے۔ اور اس لیے کہتا ہے : جس کارساز فطرت نے تمام کارخانہ ہستی کی بنیاد ” رحمت“ پر رکھی ہے ضروری تھا کہ اس گوشہ میں بھی اس کے تمام احکام سر تا سر رحمت کی تصویر ہوں۔ خدا اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے : چنانچہ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے اور سچی عبودیت اسی کی عبودیت ہے جس کے لیے معبود صرف معبود ہی نہ ہوبلکہ محبوب بھی ہو : ” ومن الناس من یتخذ من دون اللہ اندادا یحبونہم کحب اللہ والذین امنوا اشد حبا للہ : اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے ہیں جو دوسری ہستیوں کو اللہ کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہتے لگتے ہیں جس طرح اللہ کو چاہنا ہوتا ہے حالانکہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ محبت صرف اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے“ ” قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (٣١): (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے) کہہ دو اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو (میں تمہیں محبت الٰہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں، اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہوجاؤ گے بلکہ خود) اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ وہ جابجا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ایمان باللہ کا نتیجہ اللہ کی محبت اور محبوبیت ہے : ”یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ : اے پیروان دعوت ایمانی ! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی راہ سے پھرجائے گا تو (وہ یہ نہ سمجھے کہ دعوت حق کو اس سے کچھ نقصان پہنچے گا) عنقریب اللہ ایک گروہ ایسے لوگوں کا پیدا کردے گا جنہیں اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور وہ اللہ کو محبوب رکھنے والے ہوں گے“۔ جو خدا سے محبت کرنا چاہے اسے چاہیے اس کے بندوں سے محبت کرے : لیکن بندے کے لیے خدا کی محبت کی عملی راہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : خدا کی محبت کی راہ اس کے بندوں کی محبت میں سے ہو کر گزری ہے۔ جو انسان چاہتا ہے خدا سے محبت کرے اسے چاہیے کہ خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے : ” واتی المال علی حبہ : اور جو اپنا مال اللہ کی محبت میں نکلاتے اور خرچ کرتے ہیں“ ” وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا (٨)إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لا نُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلا شُکُورًا (٩): اور اللہ کی محبت میں وہ مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھالتے ہیں (اور کہتے ہیں) ہمارا یہ کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ محض اللہ کے لیے ہے ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکر گزاری“ ایک حدیث قدسی میں یہی حقیقت نہایت مؤثر پیرائے میں واضح کی گئی ہے : ” یابان ادم مرضت فلم تعدنی قال کیف اعودک وانت رب العالمین۔ قال اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ؟ اما علمت انک لوعدتہ لوجدتنی عندہ؟ یا ابن ادم ان ستطعمتک فلم تطعمنی قال یا رب کیف اطعمک وانت رب العالمین؟ قال امت انہ استطعمک عبدی فلان فلم تطعمہ ام اعلمت انک لو اطعمتہ لوجدت ذلک عندی؟ یا ابن ادم استسقیتک فلم تسقنی قال کیف اسقتیتک وانت رب العالمین، قال استسقاک عبدی فلان فلم تسقہ اما انک لوسقیتہ لوجت ذلک عندی ؟“ (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ) ” قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ خدا ایک انسان سے کہے گا۔ اے ابن آدم ! میں بیمار ہوگیا تھا مگر تو نے میری بیماری پرسی نہ کی۔ بندہ متعجب ہو کر کہے گا بھلا ایسا کیونکر ہوسکتا ہے اور تو تو رب العالمین ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ تیرے قریب بیمار ہوگیا تھا اور تو نے اس کی خبر نہیں لی تھی۔ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اسی طرح خدا فرمائے گا اے ابن آدم میں تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ تجھے کسی بات کی احتیاج ہو؟ خدا فرمائے گا کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بھوکے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار کردیا تھا۔ اگر تو اسے کھلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا ایسے ہی خدا فرمائے گا اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ تجھے پیاس لگے تو تو خود پروردگار ہے؟ خدا فرمائے گا میرے فلاں پیاسے بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اعمال و عبادات اور اخلاق و خصائل : اسی طرح قرآن نے اعمال و عبادات کی جو شکل و نوعیت قرار دی ہے، اخلاق و خصائل میں سے جن جن باتوں پر زور دیا ہے اور اوامر و نواہی میں جو اصول و مبادی ملحوظ رکھے ہیں ان سب میں بھی یہی حقیقت کام کر رہی ہے۔ اور یہ چیز اس درجہ واضح و معلوم ہے کہ بحث و بیان کی ضرورت نہیں۔ قرآن سر تا سر رحمت الٰہی کا پیام ہے : اور پھر یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت کے ساتھ نہیں دہرایا ہے اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے جس قدر رحمت ہے۔ اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں ” رحمت“ کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زیادہ مقامات ہوں گے اور اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کرلیے جائیں۔ جہاں اگرچہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے۔ لیکن ان کا تعلق رحمت ہی سے ہے۔ مثلاً ربوبیت، مغفرت، رافت کرم، حلم، عفو و غیرہا تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جاسکتا ہے قرآن اول سے لے کر آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا پیام ہے ! بعض احادیث : ہم اس موقع پر وہ تمام تصریحات قصداً چھور رہے ہیں جن کا ذخیرہ احادیث میں موجود ہے کیونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل و بحث کا متحمل نہیں۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی جو حقیقت ہمیں بتلائی ہے وہ تمام تر یہی ہے کہ خدا کی موحدانہ پرستش اور اس کے بندوں پر شفقت و رحمت۔ ایک مشہور حدیث جو ہر مسلمان واعظ کی زبان پر ہے ہمیں بتلاتی ہے کہ انما یرحم اللہ من عبادہ الرحمانء ” خدا کی رحمت انہی دبندوں کے لیے ہے جو ان کے بندوں کے لیے رحمت رکھتے ہیں۔ (طبرانی و ابن جریر بسند صحیح) حضرت مسیح (علیہ السلام) کا مشہور کلمہ وعظ ” زمین والوں پر رحم کرو تاکہ وہ جو آسمان پر ہے تم پر رحم کرے“ بجنسہ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر بھی طاری ہوا ہے) (الرحمن تبارک وتعالی۔ ارحموا من فی الارض یرحمکمم من فی السماء) (امام احمد نے مسند میں، ترمذی، اور ابوداود نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ وروینا سلسلا من طریق الشیخ محمود شکری الالوسی العراقی وایضا عن والدی المرحوم عن الشیخ صدر الدین الدھئولی من طریق الشیخ احمد ولی اللہ رحمہم اللہ)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے انسانی رحمت و شفقت کی جو ذہنیت پیدا کرنی چاہی ہے وہ اس قدر وسیع ہے کہ بے زبان جانور بھی اس سے باہر نہیں ہیں۔ ایک سے زیادہ حدیثیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ اللہ کی رحمت رحم کرنے والوں کے لیے ہے اگر یہ رحم ایک چڑیا ہی کے لیے کیوں نہ ہو ” من رحم ولو ذبیحۃ عصفور رحمہ اللہ یوم القیامۃ(رواہ البخاری فی الادب المفرد والطبرانی عن ابی امامۃ وصححہ السیوطی فی الجامع الصغیر) مقام انسانی اور صفات الٰہی سے تخلق و تشبہ : اصل یہ ہے کہ قرآن نے خدا پرستی کی بنیاد ہی اس جذبہ پر رکھی ہے کہ انسان خدا کی صفتوں کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے۔ وہ انسان کے وجود کو ایک ایسی سرحد قرار دیتا ہے جہاں حیوانیت کا درجہ ختم ہوتا اور ایک مافوق حیوانیت درجہ شروع ہوجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے : انسان کا جوہر انسانیت جو اسے حیوانات کی سطح سے بلند و ممتاز کرتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہ صفات الٰہی کا پرتو ہے اور اس لیے انسانیت کی تکمیل یہ ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ صفات الٰہی سے تخلق و تشبہ پیدا ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جہاں کہیں بھی انسان کی خاص صفات کا ذکر کیا ہے انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔ حتی کہ جوہر انسانیت کو خدا کی روح پھونک دینے سے تعبیر کیا ” ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ“ (32:، 8) یعنی خدا نے آدم میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دیا اور اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے اندر عقل و حواس کا چراغ روشن ہوگیا۔ در ازل پرتو حسنت زتجلی دم زد : عشق پیدا شد و آتش بہ ہمہ عالم زد بس اگر وہ خدا کی رحمت کا تصور ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس لیے کہ وہ چاہتا ہے ہم بھی سرتاپا رحمت و محبت ہوجائیں۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا مرقع بار بار ہماری نگاہوں کے سامنے لاتا ہے تو یہ اس لیے کہ وہ چاہتا ہے ہم بھی اپنے چہرہ اخلاق میں ربوبیت کے سارے خال و خط پیدا کرلیں۔ اگر وہ اس کی رافت و شفقت کا ذکر کرتا ہے، اس کے لطف و کرم کا جلودہ دکھاتا ہے، اس کے جود و احسان کا نقشہ کھینچتا ہے تو اسی لیے کہ وہ چاہتا ہے ہم میں بھی ان الٰہی صفتوں کا جلوہ نمودار ہوجائے۔ وہ بار بار ہمیں سناتا ہے کہ خدا کی بخشش و درگزر کی کوئی انتہا نہیں اور اس طرح ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم میں بھی اس کے بندوں لیے بخشش و درگزر کا غیر محدود جوش پیدا ہوجانا چاہیے۔ اگر ہم اس کے بندوں کی خطائیں بخش نہیں سکتے تو ہمیں کیا حق ہے اپنی خطاؤں کے لیے اس کی بخشائشوں کا انتظار کریں؟ احکام و شرائع : جہاں تک احکام و شرائع کا تعلق ہے بلاشبہ اس نے یہ نہیں کہا دشمنوں کو پیار کرو کیونکہ ایسا کہنا حقیقت نہ ہوتی، مجاز ہوتا۔ لیکن اس نے کہا کہ دشمنوں کو بھی بخش دو اور جو دشمن کو بخش دینا سیکھ لے گا اس کا دل خود بخود انسانی بغض و نفرت کی آلودگیوں سے پاک ہوجائے گا۔ الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین : غصہ ضبط کرنے والے، اور انسانوں کے قصور بخش دینے والے اور اللہ کی محبت انہی کے لیے ہے جو احسان کرنے والے ہیں۔ وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلانِیَۃً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ (٢٢): اور جن لوگوں نے اللہ کی محبت میں (سختی و ناگواری) برداشت کرلی، نماز قائم کی، خدا کی دی ہوئی روزی پوشیدہ و علانیہ (اس کے بندوں کے لیے) کرچ کی اور برائی کا جواب برائی سے نہیں نیکی سے دیا تو (یقین کرو) یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا بہتر ٹھکانا ہے۔ ’ ولمن صبر و غفر ان ذلک لمن عزم الامور : اور (دیکھو) جو کوئی برائی پر صبر کرے اور بخش دے تو یقینا یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے۔ ” ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذ الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔ وما یلقاھا الا الذن صبروا وما یلقاہا الا ذو حظ عظیم : اور (دیکھو) نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی (اگر کوئی برائی کرے تو) برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا طریقہ ہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم دیکھو گے کہ جس شخص سے تمہاری عداوت تھی یکایک تمہارا دلی دوست ہوگیا ہے البتہ یہ ایسا مقام ہے جو اسی کو مل سکتا ہے جو (بدسلوکی سہہ لینے کی) برداشت رکھتا ہو اور جسے (نیکی وسعادت کا) حصہ وافر ملا ہو“۔ بلاشبہ اس نے بدلہ لینے سے بالکل روک نہیں دیا اور وہ کیونکر روک سکتا تھا جب کہ طبیعت حیوانی کا یہ فطری خاصہ ہے اور حفاظت نفس اس پر موقوف ہے لیکن جہاں کہیں بھی اس نے اس کی اجازت دی ہے ساتھ ہی عفو و بخشش اور بدمی کے بدلے نیکی کرنے کی موثر ترغیب بھی دے دی ہے اور ایسی موثر ترغیب دی ہے کہ ممکن نہیں ایک خدا پرست انسان اس سے متاثر نہ ہو : ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لہو خیر للصابرین : اور (دیکھو) اگر تم بدلہ لو، تو چاہیے جتنی اور جیسی کچھ برائی تمہارے ساتھ کی گئی ہے اسی کے مطابق ٹھیک ٹھیک بدلہ بھی لیا جائے (یہ نہ ہو کہ زیادتی کر بیٹھو) لیکن اگر تم برداشت کرجاؤ اور بدلہ نہ لو تو (یاد رکھو) برداشت کرنے والوں کے لیے برداشت کرجانے ہی میں بہتری ہے۔ ” وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ : اور برائی کے لیے ویسا ہی اور اتنا ہی بدلہ ہے جیسی اور جتنی برائی کی گئی ہے۔ لیکن جس کسی نے درگزر کیا اور معاملہ بگاڑنے کی جگہ سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے“۔ انجیل اور قرآن : ہم نے قرآن کی آیات عفو وبخشش نقل کرتے ہوئے ابھی کہا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمنوں کو پیا کرو کیونکہ ایسا کہنا حقیقت نہ ہوتی، مجاز ہوتا۔ ضروری ہے کہ اس کی مختصر تشریح کردی جائے : حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہودیوں کی ظاہر پرستیوں اور اخلاقی محرومیوں کی جگہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی اخلاقی قربانیوں پر زور دیا تھا اور ان کی دعوت کی اصلی روح یہی ہے۔ چنانچہ ہم انجیل کے مواعظ میں جا بجا اس طرح کے خطابات پاتے ہیں ” تم نے سنا ہوگا کہ اگلوں سے کہا گیا دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ لیکن میں کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا“ یا ” اپنے ہمسایوں ہی کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی پیار کرو“ یا مثلا ” اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو چاہیے دوسرا گال بھی آگے کردو“ دعوت مسیح اور دنیا کی حقیقت فراموشی : افسوس ہے کہ انجیل کے معتقدوں اور نکتہ چینوں دونوں نے یہاں ٹھوکر کھائی۔ دونوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ یہ تشریع تھی اور اس لیے دونوں کو تسلیم کرلینا پڑا کہ یہ ناقابل عمل احکام ہیں۔ معتقدوں نے خیال کیا کہ اگرچہ ان احکام پر عمل نہیں کیا جاسکتا تاہم مسیحیت کے احکام یہی ہیں اور عملی نقطہ خیال سے اس قدر کافی ہے کہ اوائل عہد میں چند ولیوں اور شہیدوں نے ان پر عمل کرلیا تھا۔ نکتہ چینوں نے کہا کہ یہ سر تا سر ایک نظری اور ناقابل عمل تعلیم ہے اور کہنے میں کتنی ہی خوشنما ہو لیکن عملی نقطہ خیال سے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ یہ فطرت انسانی کے صریح خلاف ہے۔ فی الحقیقت نوع انسانی کی یہ بڑی ہی درد انگیز نا انصافی ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم الشان معلم کے ساتھ جائز رکھی گئی۔ جس طرح بے درد نکتہ چینوں نے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح نادان معتقدوں نے بھی فہم و بصیرت سے انکار کردیا۔ حضرت مسیح کی تعلیم کو فطرت انسانی کے خلاف سمجھنا تفریق بین الرسل ہے : لیکن کیا کوئی انسان جو قرآن کی سچائی کا معترف ہو۔ ایسا خیال کرسکتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم فطرت انسانی کے خلاف تھی اور اس لیے ناقابل عمل تھی حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تصدیق کے ساتھ ایسا منکرانہ خیال جمع نہیں ہوسکتا۔ گر ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اسے تسلیم کرلیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم کی سچائی سے انکار کردیں۔ کیونکہ جو تعلیم فطرت انسانی کے خلاف ہے وہ کبھی انسان کے لیے سچی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن ایسا اعتقاد نہ صرف قرآن کی تعلیم کے خلاف ہوگا بلکہ اس کی دعوت کی اصلی بنیاد ہی متزلزل ہوجائے گی۔ اس کی دعوت کی بنیادی اصل یہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام رہنماؤں کی یکساں طور پر تصدیق کرتا اور سب کو خدا کی ایک ہی سچائی کا پیامبر قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : پیروان مذہب کی سب سے بڑی گمراہی تفریق بین الرسل ہے۔ یعنی ایمان و تصدیق کے لحاظ سے خدا کے رسولوں میں تفریق کرنا، کسی ایک کو ماننا دوسروں کو جھٹلانا یا سب کو ماننا کسی ایک کا انکار کردینا۔ اسی لیے اس نے جابجا اسلام کی راہ یہ بتلائی ہے : ” لا نفرق بین احد منہم ونحن لہ مسلمون : ہم خدا کے رسولوں میں سے کسی کو بھی دوسروں سے سے جدا نہیں کرتے (کہ کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں) ہم تو خدا کے آگے جھکے ہوئے (س کی سچائی کہیں بھی آئی ہو اور کسی کی زبانی آئی ہو، ہمارا اس پر ایمان ہے“ (آل عمران : 84) علاوہ بریں خود قرآن نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی دعوت کا یہی پہلو جابجا نمایاں کیا ہے کہ وہ رحمت و محبت کے پیامبر تھے اور یہودیوں کی اخلاقی خشونت و قساوت کے مقابلہ میں مسیحی اخلاق کی رقت و رافت کی بار بار مدح کی ہے : ” ولنجعلہ ایۃ للناس و رحمۃ منا وکان امر امقضیا : اور تاکہ ہم اس کو (یعنی مسیح (علیہ السلام) کے ظہور کو) لوگوں کے لیے ایک الٰہی نشانی اور اپنی رحمت کا فیضان بنائیں اور یہ بات (مشیت الٰہی میں) طے شدہ تھی“ (مریم :21)۔ ” وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ: اور ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے (مسیح کی) پیروی کی، ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی“ (57:، 27) اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن نے جس قدر اوصاف خود اپنی نسبت بیان کیے ہیں پوری فراخ دلی کے ساتھ وہی اوصاف تورات و انجیل کے لیے بھی بیان کیے ہیں۔ مثلاً وہ جس طرح اپنے آپ کو ہدایت کرنے والا، روشنی سے متصف قرار دیتا ہے۔ چنانچہ انجیل کی نسبت ہم جا بجا پڑھتے ہیں ” واتینہ الانجیل فیہ ھدی ونور و مصدقا لما بین یدیہ من التوراۃ وھدی و موعظۃ للمتقین“ (5:، 46)۔ یہ ظاہر ہے کہ جو تعلیم فطرت بشری کے خلاف اور ناقابل عمل ہو، وہ کبھی نور و ہدایت اور موعظۃ للمقتین نہیں ہوسکتی۔ دعوت مسیحی کی حقیقت : اصل یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ان تمام تعلیمان کی وہ نوعیت ہی نہ تھی جو غلطی سے سمجھ لی گئی اور دنیا میں ہمیشہ انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کے انکار سے نہیں بلکہ کج اندیشانہ اعتراف ہی سے پیدا ہوئی ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ظہور ایک ایسے عہد میں ہوا تھا جب کہ یہودیوں کا اخلاقی تنزل انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا اور دل کی نیکی اور اخلاق کی پاکیزگی کی جگہ محض ظاہر احکام و رسوم کی پرستش دینداری و خدا پرستی سمجھی جاتی تھی۔ یہودیوں کے علاوہ جس قدر متمدن قومیں قرب و جوار میں موجود تھیں۔ مثلا رومی، مصری، آشوری وہ بھی انسانی رحم و محبت کی روح سے یکسسرنا آشنا تیں۔ لوگوں نے یہ ابت تو معلوم کرلی تھی کہ مجرموں کو سزائیں دینی چاہیں لیکن اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی چارہ سازیوں سے جرموں اور گناہوں کی پیدائش روک دینی چاہیے۔ انسانی قتل وہ لاکت کا تماشا دیکھنا، طرح طرح کے ہولناک طریقوں سے مجرموں کو ہلاک کرنا، زندہ انسانوں کو درندوں کے سامنے ڈال دینا، آباد شہروں کو بلا وجہ جلا کر خاکستر کردینا، اپنی قوم کے علاہ تمام انسانوں کو غلام سمجھنا اور غلام بنا کر رکھنا، رحم و محبت اور حلم و شفقت کی جگہ قلبی قساوت و بے رحمی پر فخر کرنا، رومی تمدن کا اخلاق اور مصری اور آشوری دیوتاؤں کا پسیدہ طریقہ تھا۔ ضرورت تھی کہ نوع انسانی ہدایت کے لیے ایک ایسی ہستی مبعوث ہو جو سر تا سر رحمت و محبت کا پیام ہو، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے قطع نظر کر کے صرف اس کی قلبی و معنوی حالت کی اصلاح و تزکیہ پر اپنی تمام پیغمبرانہ ہمت مبذول کردے۔ چنانچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت میں وہ ہستی نمودار ہوگئی۔ اس نے جسم کی جگہ روح پر، زبان کی جگہ دل پر، اور ظاہر کی جگہ باطن پر نوع انسانی کی توجہ دلائی اور انسانیت اعلیٰ کا فراموش شدہ سبق تازہ کردیا۔ مواعظ مسیح کے مجازات کو تشریح و حقیقت سمجھ لینا سخت غلطی ہے۔ معمولی سے معمولی کلام بھی بشرطیکہ بلیغ ہو اپنی بلاغت کے مجازات رکھتا ہے۔ قدرتی طور پر اس الہامی بلاغت کے بھی مجازات تھے جو اس کی تاثیر کا زیور اور اس کی دل نشینی کی خوبروئی ہیں لیکن افسوس کہ وہ دنیا جو اقانیم ثلاثہ اور کفارہ جیسے دورازکار عقائد پیدا کرلینے والی تھی ان کے مواعظ کا مقصد و محل نہ سمجھ سکی اور مجازات کو حقیقت سمجھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہوگئی۔ انہوں نے جہاں کہیں یہ کہا ہے کہ ’[ دشمنوں کو پیار کرو“ تو یقیناً اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے دشمنوں کا عاشق زار ہوجائے بلکہ سیدھا سادھا مطلب یہ تھا کہ تم میں غیظ و غضب اور نفرت و انتقام کی جگہ رحم و محبت کا پرجوش جذبہ ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے کہ دوست تو دوست، دشمن تک کے ساتھ عفو و درگزر سے پیش آؤ۔ اس مطلب کے لیے کہ رحم کرو، بخش دو، انتقام کے پیچھے نہ پڑو، یہ ایک نہایت ہی بلیغ اور موثر پیرایہ بیان ہے کہ ” دشمنوں تک کو پیار کرو“ ایک ایسے گرد و پیش میں جہاں اپنوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی رحم و محبت کا برتاؤ نہ کیا جاتا ہو یہ کہنا کہ اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کرو رحم و محبت کی ضرورت کا ایک اعلی اور کامل ترین تخیل پیدا کردینا تھا۔ شنیدم کہ مردان راہ خدا۔ دل دشمنان ہم نہ کردند تنگ ترا کے میسر شود ایں مقام۔ کہ بادوستانت خلاف ست و جنگ یا مثلا اگر انہوں نے کہا ” اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کردو“ تو یقینا اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ سچ مچ کو تم اپنا گال آگے کردیا کرو بلکہ صریح مطلب یہ تھا کہ انتقام کی جگہ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرو۔ بلاغت کلام کے یہ وہ مجازات ہیں جو ہر زبان میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور یہ ہمیشہ بڑی ہی جہالت کی بات سمجھی جاتی ہے کہ ان کے مقصود و مفہوم کی جگہ ان کے منطوق پر زور دیا جائے۔ اگر ہم اس طرح کے مجازات کو ان کو ظواہر پر محمول کرنے لگیں گے تو نہ صرف تمام الہامی تعلیمات ہی درہم برہم ہوجائیں گی۔ بلکہ انسان کا وہ تمام کلام جو ادب و بلاغت کے ساتھ دنیا کی تمام زبانوں میں کہا گیا ہے یک قلم مختلف ہوجائے گا۔ اعمال انسانی میں اصل رحم و محبت ہے نہ کہ تعزیر و انتقام : باقی رہی یہ بات کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے سزا کی جگہ محض رحم و درگزر ہی پر زور دیا تو ان کے مواعظ کی اصلی نوعیت سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ شرائع نے تعزیر و عقوبت کا حکم دیا تھا لیکن اس لیے نہیں کہ تعزیر وعقوبت فی نفسہ کوئی مستحسن عمل ہے بلکہ اس لیے کہ معیشت انسانی کی بعض ناگریز حالتوں کے لیے یہ ایک ناگزیر علاج ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا کہ ایک کم درجہ کی برائی تھی جو اس لیے گوارا کرلی گئی کہ بڑے درجے کی برائیاں روکی جاسکیں۔ لیکن دنیا نے اسے علاج کی جگہ ایک دل پسند مشغلہ بنا لیا اور رفتہ رفتہ انسان کی تعذیب و ہلاکت کا ایک خوفناک آلہ بن گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی قتل و غارت گری کی کوئی ہولناکی ایسی نہیں ہے جو شریعت اور قانون کے نام سے نہ کی گئی ہو اور جو فی الحقیقت اسی بدلہ لینے اور سزا دینے کے حکم کا ظالمانہ استعمال نہ ہو۔ اگر تاریخ سے پوچھا جائے کہ انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی قوتیں میدانہائے جنگ سے باہر کون کون سی رہیں ہیں؟ تو یقینا اس کی انگلیاں ان عدالت گاہوں کی طرف اٹھ جائیں گی جو مذہب اور قانون کے ناموں سے قائم کی گئیں اور جنہوں نے ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کی تعذیب و ہلاکت کا عمل اس کی ساری وحشت انگیزیوں اور ہولناکیوں کے ساتھ جاری رکھا۔ پس اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے تعزیر و عقوبت کی جگہ سر تا سر رحم و درگزر پر زور دیا تو یہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ نفس تعزیر و سزا کے خلاف کوئی نئی تشریع کرنی چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس ہولناک غلطی سے انسان کو نجات دلائیں جس میں تعزیر و عقوبت کے غلو نے مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ دنیا کو بتلانا چاہتے تھے کہ اعمال انسانی میں اصل رحمت و محبت ہے، تعزیر و انتقام نہیں ہے۔ اور اگر تعزیر و سیاست جائز رکھی گئی ہے تو صرف اس لیے کہ بطور ایک ناگزیر علاج کے عمل میں لائی جائے۔ اس لیے نہیں کہ تمہارے دل رحم و محبت کی جگہ سر تاسر نفرت و انتقام کا آشیانہ بن جائیں ! (شاید انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی۔ جس انجیل کی تعلیم کا یہ مطلب سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ کسی حال میں بدلہ لینے اور سزا دینے کی اجازت نہیں اسی انجیل کے پیرووں نے نوع انسانی کی تعذیب و ہلاکت کا عمل ایسی وحشت و بے رحمی کے ساتھ صدیوں تک جاری رکھا کہ آج ہم اس کا تصور بھی بغیر وحشت و ہراس کے نہیں کرسکتے۔ اور پھر یہ جو کچھ کیا گیا انجیل اور اس کے مقدس معلم کے نام پر کیا گیا !) شریعت موسوی کے پیرووں نے شریعت کو صرف سزا دینے کا آلہ بنا لیا تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بتلایا کہ شریعت سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ نجات کی راہ دکھانے آتی ہے اور نجات کی راہ سر تا سر رحمت و محبت کی راہ ہے ! ’ عمل“ اور ” عامل“ میں امتیاز : در اصل اس بارے میں انسان کی بنیادی غلطی یہ رہی ہے کہ عمل میں اور عامل میں امتیاز قائم نہیں رکھتا۔ حالانکہ جہاں تک مذہب کی تعلیم کا تعلق ہے اس بات میں کہ ایک عمل کیسا ہے اور اس بات میں کہ کرنے والا کیسا ہے بہت بڑٓ فرق ہے اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ بلاشبہ تمام مذاہب کا یہ عالمگیر مقصد رہا ہے کہ بد عملی اور گناہ کی طرف سے انسان کے دل میں نفرت پیدا کردیں لیکن یہ انہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ خود انسان کی طرف سے انسان کے اندر نفرت پیدا ہوجائے۔ یقینا انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گناہ سے نفرت کرو لیکن یہ کبھی نہیں کہا ہے کہ گنہگار سے نفرت کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طبیب ہمیشہ لوگوں کو بیماریوں سے ڈراتا رہتا ہے اور بسا اوقات ان کے مہلک نتائج کا ایسا ہولناک نقشہ کھینچ دیتا ہے کہ دیکھنے والے سہم کر رہ جاتے ہیں لیکن یہ تو وہ کبھی نہیں کرتا کہ جو لوگ بیماری ہوجائیں ان سے ڈرنے اور نفرت کرنے لگے یا لوگوں سے کہے ڈرو اور نفرت کرو؟ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی تو ساری توجہ اور شفقت کا مرکز بیمار ہی کا وجود ہوتا ہے۔ جو انسان جتنا زیادہ بیمار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی توجہ اور شفقت کا مستحق ہوجائے گا۔ مرض اور مریض : پس جس طرح جسم کا طبیب بیماریوں کے لیے نفرت لیکن بیماری کے لیے شفقت و ہمدردی کی تلقین کرتا ہے ٹھیک اسی طرح روح و دل کے طبیب بھی گناہوں کے لیے نفرت لیکن گنہگاروں کے لیے سرتاپا رحمت و شفقت کا پیام ہوتے ہیں َ یقینا وہ چاہتے ہیں کہ گناہوں سے (جو روح و دل کی بیماریاں ہیں) ہم میں دہشت و نفرت پیدا کردیں لیکن گنہگار انسانوں سے نہیں، اور یہی وہ نازک مقام ہے جہاں ہمیشہ پیروان مذاہب نے ٹھوکر کھائی ہے۔ مذاہب نے چاہا تھا انہیں برائی سے نفرت کرنا سکھلائیں۔ لیکن برائی سے نفرت کرنے کی جگہ انہوں نے ان انسانوں سے نفرت کرنا سیکھ لیا جنہیں وہ اپنے خیال میں برائی کا مجرم تصور کرتے ہیں ! گناہوں سے نفرت کرو مگر گناہگاروں پر رحم کرو : حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم سر تا سر اسی حقیقت کی دعوت تھی۔ گناہوں سے نفرت کرو مگر ان انسانوں سے نفرت نہ کرو جو گناہوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اگر ایک انسان گنہگار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی روح و دل کی تندرستی باقی نہ رہی۔ لیکن اگر اس نے بدبختانہ اپنی تندرستی ضائع کردی ہے تو تم اس سے نفرت کیوں کرو؟ وہ تو اپنی تندرستی کو کھو کر اور زیادہ تمہارے رحم و شفقت کا مستحق ہوگیا ہے۔ تم اپنے بیماری بھائی کی تمیار داری کرو گے یا اسے جلاد کے تازیانے کے حوالے کردوگے؟ وہ موقع یاد کرو جس کی تفصیل ہمیں سینٹ لوقا کی زبانی معلوم ہوئی ہے۔ جب ایک گناہگار عورت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے بالوں کی لٹوں سے ان کے پاؤں پونچھے تو اس پر ریاکار فریسیوں کو ( اور اب فریسیت کے معنی ہی ریاکاری کے ہوگئے ہیں (Pharisaism) سخت تعجب ہوا لیکن انہوں نے کہا طبیب بیماروں کے لیے ہوتا ہے نہ کہ تندرستوں کے لیے۔ پھر خدا اور اس کے گناہگار بندوں کا رشتہ رحمت واضح کرنے کرنے کے لیے ایک نہایت ہی مؤثر اور دلنشین مثال بیان کی۔ فرض کرو، ایک ساہوکار کے دو قرضدار تھے، ایک پچاس روپیہ کا، ایک ہزار روپیہ کا۔ ساہو کار نے دونوں کا قرض معاف کردیا۔ بتلاؤ کس قرضدار پر اس کا احسان زیادہ ہوا، اور کون اس سے زیادہ محبت کرے گا؟ وہ جسے پچاس معاف کردیے، یا وہ جسے ہزار؟ نصیب ماست بہشت اے خدا شناس برو۔ کہ مستحق کرامت گناہگار انند یہی حقیقت ہے جس کی طرف بعض ائمہ تابعین نے اشارہ کیا ہے (انکسار العاصیین احب الی اللہ من صولۃ المطیعین)۔ خدا کو فرمانبردار بندوں کی تمکنت سے کہیں زیادہ گناہگار بندوں کا عجز و انکسار محبوب ہے۔ گدایاں را ازیں معنی خبر نیست۔ کہ سلطان جہاں باماست امروز قرآن اور گناہگار بندوں کے لیے صدائے تشریف وحمت : اور پھر یہی حقیقت ہے کہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں جہاں کہیں خدا نے گناہگار انسانوں کو مخاطب کیا ہے یا ان کا ذکر کیا ہے تو عموماً یائے نسبت کے ساتھ کیا ہے جو تشریف و محبت پر دلالت کرتی ہے۔ ” قل یاعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم“ (39:53)۔ ” ءانتم اضللتم عبادی“ (25:17) اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک جیسے ایک باپ جوش محبت میں اپنے بیٹے کو پکارتا ہے تو خصوصیت کے ساتھ اپنے رشتہ پدری پر زور دیتا ہے ” اے میرے بیٹے“ ” اے میرے فرزند“۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے سورۃ زمر کی آیہ رحمت کی تفسیر کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کو اپنی طرف نسبت دے کر مخاطب کرتے ہیں تو وہ بے خوف و خطر ہماری طرف دوڑنے لگتے ہیں کیونکہ سمجھ جاتے ہیں ہم ان پر غضبناک نہیں۔ قرآن میں خدا نے بیس سے زیادہ موقعوں پر ہمیں عبادی کہہ کر اپنی طرف نسبت دی ہے اور سخت سے سخت گناہگار انسانوں کو بھی یاعبادی کہہ کر پکارا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑے کر اس کی رحمت و آمرزش کا کوئی پیام ہوسکتا ہے؟ صحیح مسلم کی مشہور حدیث کا مطلب کس طرح واضح ہوجاتا ہے۔ جب ہم اس روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ” والذی نفسی بیدہ لم لم تذنبوا لذھب اللہ بکم ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون“ (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ (رض) و ایضا عن انس قال قال صلی اللہ علیہ والذی نفسی بیدہ، لو اخطاتم حتی تملاء خطایاکم مابین السماء والارض، ثم استغفرتم اللہ یغفر لکم۔ والذی نفسی بیدہ لو لم تخطئون لجاء اللہ بقوم یخطئون ثم یستغفرون فیغفر لہم۔ اخرجہ واحمد و ابویعلی باسناد رجالہ ثقات۔ وعن ابن عمر مرفوعا لو لم تذبنوا۔ لخلق اللہ خلقا یذنبون ثم یغفرلہم۔ اخرجہ احمد والبزار و رجالہم ثقات۔ واخرج البزار من حدیث ابی سعید نحو حدیث ابی ھریرۃ فی الصحیح و فی اسنادی یحیی بن بکیر وھو ضعیف)۔ ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم ایسے ہوجاؤ کہ گناہ تم سے سرزد ہی نہ ہو تو خدا تمہیں زمین سے ہٹا دے اور تمہاری جگہ ایک دوسرا گروہ پیدا کردے جس کا شیوہ یہ ہو کہ گناہوں میں مبتلا ہو اور پھر خدا سے بخشش و مغفرت کی طلبگاری کرے۔ فدائے شیوہ رحمت کہ درلباس بہار۔ بعد از خواہی رندان باد نوش آمد اصلاً انجیل اور قرآن کی تعلیم میں کوئی اختلاف نہیں : پس فی الحقیقت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم میں اور قرآن کی تعلیم میں اصلا کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا معیار احکام ایک ہی ہے۔ فرق صرف محل بیان اور پیرایہ بیان کا ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے صرف اخلاق اور تزکیہ قلب پر زور دیا کیونکہ شریعت موسوی موجود تھی اور وہ اس کا ایک نقطہ بھی بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن قرآن کو اخلاق اور قانون، دونوں کے احکام بیک وقت بیان کرنے گھے اس لیے قدرتی طور پر اس نے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا جو مجازات و متشابہات کی جگہ احکام بیک وقت بیان کرے تھے اس لیے قدرتی طور پر اس نے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا جو مجازات و متشابہات کی جگہ احکام و قوانین کا صاف صاف جچا تلا پیرایہ بیان تھا۔ اس نے سب سے پہلے عفو و درگزر پر زور دیا اور اسے نیکی وفضیلت کی اصل قرار دیا۔ ساتھ ہی بدلہ لینے اور سزا دینے کا دروازہ بھی کھلا رکھا کہ ناگزیر حالتوں میں اس کے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن نہایت قطعی اور واضح لفظوں میں بار بار کہہ دیا کہ بدلے اور سزا میں کسی طرح کی نا انصافی اور زیادتی نہیں ہونی چاہے۔ یقینا دنیا کے تمام نبیوں اور شریعتوں کے احکام کا ماحصل یہی تین اصول رہے ہیں۔ ” وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ إِنَّہُ لا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ (٤٠) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہِ فَأُولَئِکَ مَا عَلَیْہِمْ مِنْ سَبِیلٍ (٤١)إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَی الَّذِینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الأرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ (٤٢) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الأمُورِ (٤٣): اور (دیکھو) برائی کے بدلے ویسی ہی اور اتنی ہی برائی ہے۔ لیکن جو کوئی بخش دے اور بگاڑنے کی جگہ سنوار لے تو (یقین کرو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے)۔ اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور جس کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور وہ ظلم کے بعد اس کا بدلہ لے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور ناحق ملک میں فساد کا باعث ہوتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے اور جو ظلم کرتے ہیں اور ناحق ملک میں فساد کا باعث ہوتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے ! اور جو کوئی بدلہ لینے کی جگہ برائی برداشت کرجائے اور بخش دے تو یقینا یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے“۔ اسلوب بیان پر غور کرو اگرچہ ابتدا میں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ” فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ“ اور بظاہر عفو و درگزر کے لیے اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن آخر میں پھر دوبارہ اس پر زور دیا۔ ” ولمن صبر و غفر ان ذلک لمن عزم الامور“ یہ تکرار اس لیے ہے کہ عفو و درگزر کی اہمیت واضح ہوجائے۔ یعنی یہ حقیقت اچھی طرح آشکارا ہوجائے کہ اگرچہ بدلہ اور سزا کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے لیکن نیکی و فضیلت کی راہ عفو و درگزر ہی کی راہ ہے ! پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ قرآن نے اس سزا کو جو برائی کے بدلے میں دی جائے، برائی ہی کے لفظ سے تعبیر کیا۔ جزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا۔ یعنی سیئۃ کے بدلے میں جو کچھ کیا جائے گا وہ بھی سیئۃ ہی ہوگا۔ عمل حسن نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا دروازہ اس لیے باز رکھا گیا کہ اگر باز نہ رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ برائیاں ظہور میں آنے لگیں گی۔ پھر اس آدمی کی نسبت جو معاف کردے ” اصلح“ کا لفظ کہا یعنی سنوارنے والا، اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بگاڑ کے اصلی سنوارنے والے وہی ہوئے جو بدلے کی جگہ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کے زواجر و قوارع : ممکن ہے بعض طبیعتیں یہاں ایک خدشہ محسوس کریں۔ اگر فی القیقت قرآن کی تمام تعلیم کا اصل اصول رحمت ہی ہے، تو پھر اس نے اپنے مخالفوں کی نسبت زجر و توبیخ کا سخت پیرایہ کیوں اختیار کیا؟ اس کا مفصل جواب تو اپنے محل میں آئے گا لیکن تکمیل بحث کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختصراً اشارہ کردیا جائے۔ بلاشبہ قرآن میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اس نے مخالفوں کے لیے شدت و غلظت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کن مخالفوں کے لیے؟ ان کے لیے جن کی مخالفت محض اختلاف فکر و اعتقاد کی مخالفت تھی؟ یعنی ایسی مخالفت جو معاندانہ اور جارحانہ نوعیت نہیں رکھتی تھی؟ ہمیں اس سے قطعاً انکار ہے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تمام قرآن میں شدت و غلظت کا ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا جو اس کے طرح کے مخالفوں کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس نے جہاں کہیں بھی مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے سختی کا اظہار کیا ہے اس کا تمام تر تعلق ان مخالفوں سے ہے جن کی مخالفت بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی جارحانہ معاندت تھی اور ظاہر ہے کہ اصلاح و ہدایت کی کوئی تعلیم بھی اس صورت حال سے گریز نہیں کرسکتی۔ اگر ایسے مخالفوں کے ساتھ بھی نرمی و شفقت کا ملحوظ رکھی جائے تو بلاشبہ یہ رحمت کا سلوک تو ہوگا مگر انسانیت کے لیے نہیں ہوگا۔ ظلم و شرارت کے لیے ہوگا اور یقیناً سچی رحمت کا معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ظلم و فساد کی پرورش کرے۔ ابھی چند صفحوں کے بعد تمہیں معلوم ہوگا کہ قرآن نے صفات الٰہی میں رحمت کے ساتھ عدالت کو بھی اس کی جگہ دی ہے اور سورۃ فاتحہ میں ربوبیت اور رحمت کے بعد عدالت ہی کی صفت جلوہ گر ہوئی ہے۔ یہ اسی لیے ہے کہ وہ رحمت سے عدالت کو الگ نہیں کرتا بلکہ اسے عین رحمت کا مقتضا قرار دیتا ہے۔ وہ کتہا ہے۔ تم انسانیت کے ساتھ رحم و محبت کا برتاؤ کر ہی نہیں سکتے اگر ظلم و شرارت کے لیے تم میں سختی نہیں ہے۔ انجیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) بھی اپنے زمانے کے مفسدوں کو سانپ کے بچے اور ڈاکوؤں کا مجمع کہنے پر مجبور ہوئے۔ کفر محض اور کفر جارحانہ : قرآن نے ” کفر“ کا لفظ انکار کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ انکار دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ انکار محض ہو، ایک یہ کہ جارحانہ ہو۔ انکار محض سے مقصود یہ ہے کہ ایک شخص تمہاری تعلیم قبول نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی یا اس لیے کہ اس میں طلب صادق نہیں ہے یا اسلیے کہ جو راہ چل رہا ہے اسی پر قانع ہے۔ بہرحال کوئی وجہ ہو لیکن وہ تم سے متفق نہیں ہے۔ جارحانہ انکار سے مقصود وہ حالت ہے جو صرف اتنے ہی پر قناعت نہیں کرتی بلکہ اس میں تمہارے خلاف ایک طرح کی کد اور ضد پیدا ہوجاتی ہے اور پھر یہ ضد بڑھتے بڑھتے بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی سخت سے سخت صورتیں اختیار کرلیتی ہے۔ اس طرح کا مخالف صرف یہی نہیں کرتا کہ تم سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر تمہارے خلاف بغض و عناد کا ایک غیر محدود جوش پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور زندگی کی ساری قوتوں کے ساتھ تمہاری بربادی و ہلاکت کے درپے ہوجائے گا۔ تم کتنی ہی اچھی بات کہو وہ تمہیں جھٹلائے گا۔ تم کتنا ہی اچھا سلوک کرو وہ تمہیں اذیت پہنچائے گا۔ تم کہو روشنی تاریکی سے بہتر ہے تو وہ کہے تاریکی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ تم کہو کڑواہٹ سے مٹھاس اچھی ہے تو وہ کہے نہیں کڑواہٹ ہی میں دنیا کی سب سے بڑی لذت ہے۔ یہی حالت ہے جسے قرآن نے انسانی فکر و بصیرت کے تعطل سے تعبیر کرتا ہے اور اسی نوعیت کے مخالف ہیں جن کے لیے اس کے تمام زواجر و قوارع ظہور میں آئے ہیں : ” لہم قلوب لا یفقہون بہا ولہم اعین لا یبصرون بہا ولہم اذان لا یسمعون بہا اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغفلون : ان کے پاس دل ہیں مگر سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہوگئے ہیں جیسے چارپائے۔ نہیں بلکہ چارپایوں سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ بلاشبہ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں ڈوب گئے“ ہمارے مفسر اسی دوسری حالت کو کفر وجحود سے تعبیر کرتے ہیں۔ (آیت 2، الرحمن الرحیم کی تفسیر کا بقیہ حصہ ملاحظہ ہو اگلی آیت کی تفسیر میں)