وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
اور یونس بھی بلاشبہ رسولوں سے تھے
(١٥) حضرت یونس کا عبرانی نام یوناہ تھا جوعربی میں یونس ہوگیا یہ بھی انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں ان کا زمانہ ٦٠، ٨٧٤ ء ق م بتایا جاتا ہے اور عہد عقین کے نوشتوں میں سے ایک نوشتہ ان کے نام سے بھی ہے اس نوشتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اہل نینوی کو اطلاع دی تھی کہ چالیس دن کے بعد تمہارا شہر تباہ ہوجائے گایہ سن کر وہ بجائے سرکشی کے توبہ واستغفار کرنے لگے اور تباہی سے بچ گئے (سورہ یونس ٩٨)۔ نینوی شہر جو آشوریوں کا مرکز تھا دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موصل شہر کے عین بالمقابل واقع تھا اس کا محیط ساٹھ میل تھا جس سے اس شہر کی وسعت کا پتہ چلتا ہے اس پر حضرت یونس حکم خداوندی کے بغیر دوڑ کر کشتی میں سوار ہوگئے کشتی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی اثنائے سفر میں مسافروں کو بچانے کے لیے ایک شخص دریا میں اتارنا ضروری تھا چنانچہ قرعہ اندازی میں حضرت یونس کا نام نکل آیا اور وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا ان تاریکیوں میں پہنچ کرانہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور تسبیح کرنے لگے اس مچھلی نے ان کو ساحل پر اگل دیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) معجزانہ طور پر زندہ نکل آئے ساحل چونکہ چٹیل میدان تھا اللہ نے اس پر بیل اگادی اس کے پتوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) پر سایہ کا کام دیا اور اس کے پھل سے غذا حاصل کرتے رہے بالآخر اللہ نے ان کو ایک لاکھ سے زائد آبادی کی طرف مبعوث کیا اور وہ حضرت یونس کی دعوت پر ایمان لے آئے اور ایک وقت تک انہیں مہلت دے دی گئی۔ چنانچہ حضرت یوناہ، کے بعد ٦٩٠ ق م میں ان کا ظلم وفساد بڑھ گیا ارایک اسرائیلی نبی، ناموم، نامی نے انہیں پیش آنے والی تباہی کی خبر دی اس انذار تبشیر کے ستر برس بعد اہل بابل نے ان پر حملہ کیا اور دجلہ کے سیلاب سے نینوی کی چار دیواری میں دراڑیں پڑگئیں اور حملہ آوروں کے لیے کوئی روک باقی نہ رہ گئی۔ چنانچہ آشوری تمند کایہ مرکز اس طرح نابود ہوا کہ ٢٠٠ ق م اس کا جائے وقوع بھی لوگوں کو معلوم نہ تھا۔