إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ
بلاشبہ وہ ہمارے ایماندار بندوں سے تھے
(١٣) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس لڑکے کی قربانی پیش کی اور جنہوں نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا وہ کون تھے ؟ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے بائبل میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے اور یہ ظاہر ہے کہ وہ اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ حضرت اسحق، کیونکہ بائبل میں ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحق سے چودہ برس بڑے تھے جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر چھیاسی برس کی تھی اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت سو سال کے ہوچکے تھے پھر حضرت اسحق اکلوتے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ اس مسئلہ میں گوہمارے مفسرین نے دونوں قول نقل کیے ہیں مگر اصح یہی ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔ (الف) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بشارت دی گئی اور انہیں غلام حلیم، کہا۔ اور پھر اس لڑکے متعلق ارشاف فرمایا، فلمابلغ معہ السعی قال یابنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذاتری، مگر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی خوش خبری حضرت سارہ کودی گئی اور قرآن مجید نے انہیں غلام علیم کہا ہے اور ظاہر ہے کہ ذبح کا حکم، غلاحلیم، کے لیے ہے نہ غلام علیم کے لیے۔ (ب) حضرت اسحق (علیہ السلام) کی بشارت دیتے وقت یہ بھی فرمایا کہ ان کے ہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوں گے جیسا کہ سورۃ ہود آیت ٧١ میں ہے تو پھر حضرت ابراہیم کون ان کے ذبح کا حکم کیونکر دیاجاسکتا ہے؟ (ج) قرآن مجید نے ذبح کاسارا قصہ بیان کرنے کے بعد حضرت اسحاق کی خوشخبری کا ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ وہ، نبیامن الصالحین، ہوگا تو پھر انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ؟ (د) معتبر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح کیا گیا تھا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانہ تک محفوظ رہے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خانہ کعبہ (مکہ) میں پیش آیا تھا نہ کہ شام میں اور خانہ کعبہ کی تعمیر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) شریک تھے حافظ ابن کثیر مندرجہ بالا دلائل کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے ذبح ہونے کے متعلق جس قدر بھی آثار ہیں وہ سب کعب احبار سے منقول ہیں جو حضرت عمر کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور لوگوں کواسرائلیات سنایا کرتے تھے لہذایہ آثار قابل اعتماد نہیں ہوسکتے۔