اتَّبِعُوا مَن لَّا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ
ایسے رسولوں کی جو تم سے کچھ اجر نہیں مانگتے اور وہ خود راہ راست [٢٣] پر ہیں۔
(٦) انبیاء کی دعوت ذاتی مفاد سے بالا اور بے لوث ہوتی ہے اور پھر ان کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوتا یہی ان کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ” اب سے اٹھارہ سو برس پہلے رومیوں کے عظیم الشان شہر انطاکیہ کے کنارے سے دعوت حق کی صدا اٹھی تھی وہ ایک پاک روح تھی جس نے لوگوں کو نبیوں اور رسولوں کے اتباع کی طرف بلایا تھا اور کہا تھا کہ ان بتوں کی پوجا چھوڑ دو جو تمہیں کچھ بھی نفع وضرر نہیں پہنچاسکتے، اس کے سچے رسولوں کے اتباع میں بڑی بڑی سزاؤں اور جسمانی عقوبتوں کی پروا نہ کی، حتی کہ اس راہ میں شہید ہوگیا“۔ مگر ہم نے اپنے حواشی قرآن (اشرف الحواشی) میں توضیح کی ہے کہ اس بستی سے انطاکیہ مراد نہیں بلکہ دوسری کوئی بستی مراد ہے ملاحظہ ہو، سورۃ یسین وضاحت نمبر ٢، واللہ اعلم۔