سورة فاطر - آیت 43

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جس کی وجہ ان کا زمین میں بڑا بن کر رہنا اور بری چالیں چلنا تھا۔ حالانکہ بری چال تو چال چلنے والے پر ہی آپڑتی ہے۔ پھریہ صرف اس سنت الٰہی کا انتظار کر رہے ہیں جو پہلے لوگوں میں جاری رہی۔ اللہ کی اس سنت میں آپ نہ تو کبھی کوئی تبدیلی [٤٩] پائیں گے اور نہ تغیر [٥٠]۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١١) آیت ٤٣، ٤٤، میں قانون فطرت کے تحت پاداش عمل پر تنبیہ کی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہیں آئیں گے تو پچھلے کافروں کی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہوکررہے گا ان کے بارے میں اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ” جس طرح ہر بات کے لیے فطرت کے مقررہ قانون ہوئے اسی طرح قوموں اور جماعتوں کی سعادت وشقاوت اور حیات وممات کا بھی ایک قانون ہوا اور جس طرح فطرت کے تمام قوانین یکساں عالمگیر اور غیر مبدل ہیں اسی طرح یہ قانون بھی ہمیشہ ایک ہی طرح رہا ہے قوانین فطرت میں تبدیلی نہیں یہ طبعیت انسانی کا وجدان اذعان ہے یہ اعتقاد کہ آگ جلاتی ہے انسان کو صرف اتنی ہی بات سے حاصل ہوگیا کہ آگ نے ایک مرتبہ جلایا تھا“۔ طبعیت انسانی کا یہی وجدانی تاثر ہے جس نے ہمارے ذہن میں استقراء کا اعتقاد پیدا کیا یعنی جزئیات کا تجربہ کرنا اور اس کے ذریعہ سے کلیات تک پہنچنا اب ہمارے تمام علوم کاسنگ بنیاد ہی یہی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اعمال انسانی کے سلسلے میں یہ حقیقت معطل نہیں ہوگئی کہ پہلے بھی بے شمار قومیں اسی زمین میں گزرچکی ہیں ان کی بھی آبادیاں تھیں، قوتیں تھیں، شوکتیں تھیں، دنیا کی سیر کرو، مٹی ہوئی نشانیوں کا کھوج لگاؤ پھر دیکھو سعادت وشقاوت کے قانون کا کیسا عمل درآمد ہوچکا ہے۔