جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
وہ ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں [٣٨] سے آراستہ کیا جائے گا اور وہاں ان کا لباس ریشم کا ہوگا۔
(٩) اہل ایمان کے تین طبقے قرار دے کرمولانا آزاد اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : (الف) جونفوس پر ظلم کررہے ہیں کیونکہ خدا سے غافل اور اس کے رشتے کی عزت کو بھولے ہوئے ہیں، دلوں میں اعتقاد اور حسن ایمانی تو ضرور رکھتے ہیں پر ایمانی قوت میں ضعف بدرجہ کمال ہے اور عمل مفقود۔ (ب) درمیانی طبقہ جو غفلت سے متنبہ ہوا اعمال حسنہ اختیار کیے اور امرالٰہی کے آگے سراطاعت خم کیا۔ (ج) اعلی ترین طبقہ جونہ صرف خیرات ومحاسن کا انجام دینے والا ہے بلکہ ان میں اوروں سے پیش رو بھی ہے اور نیکی کی صفوں میں سب سے آگے بڑھنے والا۔ الغرض یہ تیسرا طبقہ وارثین کتاب میں صف اول کے لوگ ہیں۔ اور یہ صحابہ کرام میں مہاجرین وانصار میں السابقون الاولون لوگ ہیں جن میں سرفہرست بالترتیب خلفائے اربعہ اور عشرہ مبشرہ شامل ہیں۔ بعض علمانے اس آیت کو سورۃ واقعہ کی آیت کا ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی جان پر طلم کرنے والوں سے منافق اور کافر مراد ہیں۔ مگر یہ تفسیر سیاق قرآن کے خلاف ہے کیونکہ یہاں تین گروہوں کا ذکر فرمایا ان کاجنتی ہونا بیان کیا ہے اور اس کے بعد اہل دوزخ کا ذکر فرمایا ہے لہذا یہاں پر ظالم لنفسہ، سے گناہ گار مسلمان مراد ہیں، جو بالآخرت جنت میں چلے جائیں گے جیسا کہ متعدد آثار صحابہ سے ثابت ہے اور جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور حدیث، شفاعتی لاھل الکبائر من امتی، سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، واللہ اعلم۔