وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کے (گناہوں کا) بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور اگر بوجھ [٢٥] سے لدا ہوا شخص کسی دوسرے کو اٹھانے کے لئے بلائے گا بھی تو کوئی اس کے بوجھ کا کچھ بھی حصہ اٹھانے کو تیار نہ ہوگا اگرچہ وہ اس کا قرابت دار ہو۔ (اے نبی!) آپ تو صرف ان لوگوں کو ہی ڈرا سکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ اور جو شخص پاکیزگی [٢٦] اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے اختیار کرتا ہے اور (سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
(٧) مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کررہے تھے ان سے ان کے مشرک رشتہ دار کہتے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو اختیار نہ کرو اور آبائی دین پر قائم رہو تمہارا عذاب تو اب ہماری گردن پر۔ قرآن مجید نے وضاحت فرمائی کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا اور کسی دوسرے پر بوجھ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب قیامت آئے گی تو ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے کوئی کسی کاذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہوگا۔