وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ
تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو [٥٥]۔ ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے (وہ مقرب بن سکتا ہے) یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا دگنا [٥٦] صلہ ملے گا اور وہ بالاخانوں میں امن و چین [٥٧] سے رہیں گے
(١٠) انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کا مقابلہ سب سے پہلے خوش حال طبقوں نے کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے کہ اگر دعوت حق کامیاب ہوگئی تو ان کے ظالمانہ اختیارات کا ختامہ ہوجائے گایہ لوگ اپنی دولت واقتدار کے نشے میں یہ کہہ کرانبیاء (علیہ السلام) کی دعوت ٹھکراتے رہے کہ ہم تم سے زیادہ اللہ کے ہاں پسندیدہ ہیں اگر اللہ ہم سے راضی نہ ہوتا تو ان نعمتوں سے ہمیں کیوں نوازتا۔ لہذا ہم آخرت میں عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر دنیا پرستوں کی اس گمراہی اور غلط فہمی کی تردید کی ہے۔