سورة سبأ - آیت 17

ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا ۖ وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

ہم نے یہ سزا انھیں ان کی ناشکری کی وجہ سے دی تھی اور ہم ناشکروں کو ایسا ہی بدلہ [٢٨] دیا کرتے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٦) قوم سبا کا قصہ بھی مکافات عمل پر بہت بڑی دلیل ہے اور اس قصہ کو آیت کہنا بایں معنی بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کیا انسان شکرگزاری کرے تو اللہ کی طرف سے مزید نوازشات ہوتی ہیں اور اگر کفران نعمت پر اتر آئے تو یہ گویا عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے اور قصہ قوم سبا اس پر بڑی شہادت ہے۔ سیل العرم : عرم کے معنی بند کے ہیں اور سیل العرم سے مراد وہ سیلاب ہے جو بند ٹوٹنے کی وجہ سے آیا سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ کر نہریں جاری کی ہوئی تھیں اور آب پاشی کے اس نظام کی وجہ سے وہ علاقہ جنت نظیر بنا ہوا تھا مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو وہ بند ٹوٹ گیا اور سارا نظام درہم برہم ہوگیا باغات کے بجائے وہ علاقہ خودروجنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل کوئی چیز رہ گئی تھی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے۔ ” قری ظاھرۃ“: یعنی وہ بستیاں جوشاہراہ عام پر واقع تھیں یا مطلب یہ کہ وہ بستیاں متصل تھیں ایک کے بعددوسری بستی نظر آنے لگتی تھی ان کی سفر کی منزلیں مقرر تھیں اور راستہ کے آباد ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا لیکن جب انہوں نے ناشکری کی تو ہم نے ان کو قصہ پارینہ بنادیا مختلف قبیلے اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں جابسے غسانیوں نے اردن اور شام کارخ کیا اور اوس اور خزرج کے قبیلے مدینہ (یثرب) میں چلے آئے بنوخزاعہ نے جدہ کے قریب تہامہ میں سکونت اختیار کرلی اسی طرح دوسرے قبائل نے مختلف مقامات کارخ اختیار کیا حتی کہ سبا نام کی کوئی مستقل قوم اس دنیا میں باقی نہ رہی۔ الافریقا من المومنین۔ کے استثنا سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا میں کچھ لوگ موحد بھی تھے موجودہ دور میں عصری تحقیقات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔