يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
جو کچھ سلیمان چاہتے تھے وہی کچھ وہ جن ان کے لئے بناتے تھے۔ مثلاً قلعے، مجسمے اور حوض جتنے بڑے لگن اور دیگیں ایک جگہ جمی رہنے [٢١] والی۔ اے آل داؤد! شکر کے طور پر عمل کرو [٢٢]۔ اور میرے بندوں میں سے کم ہی شکرگزار ہوتے ہیں
(٤) حضرت سلیمان کو مزید ایک بڑی نعمت سے نوازا کہ سمندر کی باد تندان کے لیے مسخر کردی تھی قدیم عہد میں حضرت سلیمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے جہازوں سے اس طرح کام لینا شروع کیا کہ ہندوستان اور مغربی جزائر تک بحری آمد ورفت کا منظم سلسلہ قائم ہوگیا۔ توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تجارتی بیڑہ وقت کاسب سے طاقت ور بیڑہ تھا بحراحمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جوخلیج عقبہ میں واقع تھا اور بحر متوسط میں صور طائر یافہ کی بندرگاہیں۔ ادوم کے علاقہ عربہ میں خام لوہے اور تانبے کی کانیں تھیں اندازہ یہ یہیں سے خام تانبا لاکربھٹی میں گلایا جاتا اور پھر کام میں لایا جاتا، واسلنالہ عین القطر، کا غالبا یہی مفہوم ہے۔