وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں قرار [٤٧] پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت [٤٨] کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش [٤٩] نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو ' اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہل بیت [٥٠] (نبی) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی [٥١] کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے
(٧) تبرج، کے اصل معنی نمایاں طور پر ظاہر ہونے کے ہیں یہان پر، تبرج جاہلیت سے مراد یہ ہے کہ عورت اس طرح بناؤ سنگھار کرکے نمایاں ہو کر نکلے کہ نظریں اس پر جم کررہ جائیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ عورت کا اپنے محاسن کا اس طرح اظہا کرنا دیکھنے والوں کے جنسی جذبات بیدار ہوجائیں، تبرج، میں داخل ہے قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر، میک اپ کرکے عورتیں نکلا کرتی تھیں قرآن مجید نے اسے جاہلی رسم قرار دیا جسے آج ہم، ثقافت کے نام سے رائج کررہے ہیں۔ یہاں پر آیت ٣٢ میں، ازواج مطہرات، کو اہل بیت کہہ کرپکارا گیا ہماری زبان میں اس کے معنی گھروالوں کے ہیں اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کسی مرد کی وجہ کو اہل البیت کہا گیا ہے۔ یوں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک دعا میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بھی اپنے اہل بیت میں شامل کیا ہے مگر قرآن میں یہ صرف زوجہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔