اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش [٤] پر قائم ہوا۔ اس کے سوا تمہارا نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ سفارشی [٥]۔ کیا تم کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔
(٣) اب آیت ٤ سے توحید کا بیان ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونابیان کیا ہے جو بہت سی احادیث اور آثار سے ثابت ہے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر سلف کا اجماع ہے حافظ ابن قیم، اغاثہ کبیر، میں لکھتے ہیں کہ ارسطو سے پہلے تمام فلاسفہ حدوث عالم کے قائل تھے اور یہ کہ صانع عالم موجود اور عام مخلوق سے الگ، الغرض تمام اہل شریعت اور عقائد اس پر متفق چلے آتے ہیں صرف معتزلہ نے اس کی نفی کی ہے اور متاخرین اشاعرہ نے ان کے بالتبع آیات، استوی علی العرش، کی تاویل کی ہے اور قرآن نے آسمان وزمین کی خلق اور پھر انسان کی خلق سے اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک اور مدبر کائنات ہونے پر استدلال کیا ہے۔