تَنزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب (قرآن) پروردگار عالم کی طرف سے [١] نازل شدہ ہے۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور وسطی عہد کی تنزیلات سے ہے اس عہد کی سورتوں میں توحید ورسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ان کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کیا گیا ہے۔ وحی رسالت کی حقانیت، کائنات میں آفاقی وانفسی دلائل سے توحید پر استدلال کیا ہے اور آثار کائنات کو دوبارہ زندگی پر بطور استدلال پیش کیا خصوصا عالم آخرت میں جزاوسزا کا منظر بیان کرکے لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا گیا ہے اور گزشتہ اقوام کے وقائع سے عبرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے اور خاتمہ کلام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور کفار کو تنبیہ کی ہے کہ آخری فیصلے کے دن کا انتظار کرو وہ ضرور آکررہے گا۔ ” کائنات ہستی کے اسرار وغوامض بے شمار ہیں لیکن روح حیوانی کاجوہر ادراک زندگی کاسب سے زیادہ لاینحل عقدہ ہے حیوانات میں کیڑے مکوڑے تک ہر طرح کا احساس وادراک رکھتے ہیں اور انسانی دماغ کے نہاں خانہ میں عقل وتفکر کا چراغ روشن ہے چیونٹی کو دیکھو اس کے دماغ کا حجم سوئی کی نوک سے شاید ہی کچھ زیادہ ہوگا لیکن مادے کے اس حقیر ترین عصبی ذرے میں بھی احساس وادراک، محنت واستقلال، ترتیب وتناسب، نظم وضبط اور صنعت واختراع کی ساری قوتیں مخفی ہوتی ہیں، شہد کی مکھی کی کارفرمائیاں ہر روز تمہاری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں کون ہے جس نے ایک چھوٹی سی مکھی میں تعمیر وتحسین کی ایسی منتظم قوت پیدا کردی۔ قرآن کہتا ہے یہ اس لیے کہ رحمت کا مقتضا جمال تھا اور ضروری تھا کہ جس طرح اس نے جمال ظاہری سے دنیا آراستہ کردی ہے اسی طرح جمال معنوی کی آسائشوں سے بھی اسے مالامال کردے۔