وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ
اور فرعون اور اس کے لشکر اس ملک میں ناحق ہی برے بن بیٹھے تھے اور انھیں یقین ہوگیا تھا کہ ہمارے حضور [٥١] واپس نہ لائے جائیں گے۔
(٨) فرعون نے معجزات کو تو مصنوعی طلسم کا کرشمہ قرار دیا اور دعوت میں جاباتیں پیش کیں ان کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ یہ ہمارے آباء واجداد کی روایات کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر قریش کی طرف سے رسول اللہ کواسی طرح کے جواب کا ذکر ہے، ماسمعنا بھذا۔۔ تا۔۔۔ الا اختلاق۔ فرعون بذات خود بہت سے دیوتاؤں کی پوجا کرتا تھا جیسا کہ سورۃ الاعراف آیت ١٢٧ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہاں پر فرعون کایہ کہنا، ماعلمت لکم من الہ غیری۔ کسی معنی میں ہوسکتا ہے صاحب تفہیم لکھتے ہیں، یہاں پر الہ بمعنی مطاع اور حاکم مطلق کے ہے یعنی سرزمین مصر کا مالک میں ہی ہوں یہاں پر میرا حکم چلے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ مصری فرعون کو سب سے بڑے دیوتا سورج کا اوتار سمجھتے تھے اور اس لیے اس کی پرستش بھی کرتے تھے اسی بنا پر اس نے قوم کو بیوقوف بنایا اور، اناربکم الاعلی، کا دعوی کردیا قرآن میں ہے، فاسخف قومہ، فاطوعوہ۔