وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ
اور (اللہ نے حکم دیا) کہ اپنی لاٹھی پھینکو۔ پھر جب موسیٰ نے اس (پھینکی ہوئی) لاٹھی کو دیکھا تو وہ یوں حرکت کر رہی تھی جیسے کوئی سانپ ہے۔ موسیٰ پیٹھ پھیر کر پیچھے ہٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) آگے بڑھو اور ڈرو نہیں تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔
(٧) لاٹھی کے سانپ بننے، ہتھیلی کے چمک اٹھنے اور حضرت ہارون کے وزیر شریک ہونے کا ذکر توراۃ میں بھی ہے (خروج ٤) نیز یہ کہ خدا نے فرمایا ہے اب تو جا میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں (خروج ٣۔ ١)۔ اللہ تعالیٰ کودنیا کے ایک سب سے بڑے سرکش اور مستبد بادشاہ اور سب سے بڑے ظالم حکمران قوم کو ہلاک کرنا منظور تھا لیکن ابھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مہم کے پہلے مرحلے میں تھے اور اقتضائے بشریت سے ان کے دل میں خوف وہراس باقی تھا۔ وہ جب اپنی تنہائی اور فرعونیوں کی کثرت وقوت کا مقابلہ کرتے تھے توقدرتی طور پر ان کے اندر ہراس پیدا ہوجاتا تھا پس قوت مربیہ الٰہیہ نے سب سے پہلے ان کے قلب کو مختلف طریقوں سے عزم وثبات کا کامل جوہر بخشا اور دکھلادیا کہ طاقت صرف انسانوں کی قلت وکثرت میں مخفی نہیں حق اور ربانی نصرت کی روح سے معمور ہو کر ایک تنہا انسان لاکھوں انسانوں پر غالب آسکتا ہے حضرت موسیٰ کے ہاتھ نے اب تک تک تلوار کا قبضہ نہیں پکڑا تھا لیکن اللہ نے انہیں دکھلادیا کہ جو ہاتھ حق کی حمایت میں اٹھتا ہے اس کے پاس گولوہے کی تلوار نہ ہو لیکن وہ خود اپنی انگلیوں ہی کے اندر تلوار کی چمک رکھتا ہے حضرت موسیٰ اگرچہ معجزانہ آلات حرب سے مسلح ہوگئے تھے لیکن سیاسی میدان میں تلوار کی چمک اور توپوں کی گرج سے زیادہ دل کی قوت اور زبان کی طلاقت وروانی کام آتی ہے اس لیے انہوں نے اپنی کمزوریوں کا عذر کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام دعائیں قبول کی، اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی مدد سے ان کے دست وبازو کو مضبوط کردیا۔