أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ
بھلا آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا جس سے ہم نے پربہار باغات اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس [٦٠] میں نہ تھا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی ہے؟ (جو ان کاموں میں اس کا شریک ہو؟) بلکہ یہ لوگ ہیں ہی ناانصافی [٦١] کرنے والے
(٩) قرآن کا اسلوب بیان یہ نہیں کہ نظر مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دے، پھر اس پر بحث وتقرر کرکے مخاطب کو ردوتسلیم پر مجبور کرے، اس کا تمام ترخطاب انسان کے فطری وجدان وذوق سے ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ خدا پرستی کا جذبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتا ہے تو یہ اس کی غفلت ہے ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکادینے کے لیے دلیل پیش کی جائے لیکن یہ دلیل ایسی ہونی چاہیے کہ جو محض ذہن ودماغ میں کاوش پیدا کردے بلکہ ایسی ہونی چاہیے جو اس کے نہاں خانہ دل پر دستک دے اور اس کا فطری وجدان بیدار کردے۔ ان آیات میں جو سوالات ہیں ان میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے کیونکہ ان میں سے ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے اور وہ فطرت انسانی کا عالمگیر اور مسلمہ اذعان ہے ہمارے متکلموں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی اس لیے قرآن کا اسلوب استدلال ان پر واضح نہ ہوسکا اور وہ دوردراز گوشوں میں بھٹک گئے، قرآن خود انسان کی فطرت ہی سے انسان پر حجت لاتا ہے۔