فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ (ہدہد آگیا اور) کہنے لگا : میں نے وہ کچھ معلوم کیا ہے جو ابھی تک آپ کو معلوم نہیں، میں سبا [٢٤] سے متعلق ایک یقینی خبر آپ کے پاس لایا ہوں
(٥) سباجنوبی یمن کی مشہورتجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارلحکومت مآرب، موجود یمن کے دارالسلطنت صنعاء سے پچپن میل بجانب شمال مشرق واقعہ تھا اس کا زمانہ عروج معین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریبا گیارہ سو ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال کے بعد ایک سوپندرہ ق م میں جنوب عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی، عرب میں یمن اور حضرموت اور افریقہ میں حبش کے علاقہ پر ان کا قبضہ تھا ہندوستان ومصر وشما کی تجارت پر یہ قوم چھائی ہوئی تھی، تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کاسبب ان کانظام آبپاشی تھا جس سے انا کاپورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان اس قوم سے بخوبی واقف تھے بلکہ حضرت داؤد بھی ان سے شناسا تھے اس لیے ہدہد کے قول کا صرف یہ مطلب ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں چشم دید واقعات میں دیکھ کرآیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے، ہدہد کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آفتاب پرست تھے ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب ہد ہد حضرت سلیمان کا خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا سورج کی پرستش کے لیے جارہی تھی، حضرت سلیمان نے جب ہدایا واپس بھیج دیے اور دھمکی دی جو کہ آیت ٣٧ میں مذکور ہے تو ملکہ نے خود حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہونا مناسب سمجھا چنانچہ وہ اپنے خد وحشم کے ساتھ فلسطنی کی طرف روانہ ہوئی اور جب بیت المقدس سے ایک دن کے فاصلہ پر تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کا تخت منگوا کر اس میں کچھ تبدیلی کروادی۔ سبا سے بیت المقدس کا فاصلہ ایک پرند کی اڑان کے لحاظ سے کم ازکم ڈیڑھ ہزارمیل ہے اتنے فاصلے سے آن واحد میں اس تخت کا لاحاضر کرنا کسی خدائی قوت کے بغیر ممکن نہیں جس کی طرف قرآن نے، الذی عندہ علم من الکتاب، کہہ کراشارہ کیا ہے، ملکہ سبا کی حضرت سلیمان سے ملاقات پر پہلا سوال یہ ہوا، اھکذا عرشک، تو اس نے کہا، کانہ ھو، یعنی ہ تو گویا وہی ہے اس حیرت انگیز کارنامے کو دیکھ کر اسے یقین ہوچکا تھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں اس کے بعد جب قصر شاہی میں داخل ہونے کے لیے اسے کہا گیا جس کا فرش شیشے کا تھا اور اسکے نیچے پانی چھوڑا گیا تھا تو اس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں اور اسے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں چنانچہ اس نے سابقہ گناہوں کی اللہ سے معافی طلب کی اور سلیمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور اس کے بعد اپنے ملک کوروانہ ہوگئی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق حکومت چلاتی رہیں اس قدر تفصیلات جو بائبل اور یہودربیوں کی روایات میں مذکور ہیں وہ قرآن سے ملتی جلتی ہیں لیکن حضرت سلیمان کا اس سے مجامعت کرنا اور اس حرامی نسل سے بخت نصر کاپیدا ہونا یہ سب بکواس ہے جوایک نبی کی شان سے بعید ہے۔