وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ
نیز ہم نے داؤد اور سلیمان [١٤] کو علم [١٥] عطا کیا وہ دونوں کہنے لگے ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔
(٣) اب آیت ١٥ میں فرعون کے مقابل حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا ذکر ہورہا ہے جو بہت بڑی مملکت کے مالک ہونے کے باوجود اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار بندے بنے رہے اور کبھی ظلم وستم سے کام نہیں لیا۔ الف) حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو جوعلم عطا ہوا تھا اس کا مظہر زبور اور امثال ہیں اور یہ وہ علم ہے جس کی بدولت انہوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کرلی تھی جو اپنی بری اور بحری قوت کے اعتبار سے بہت بڑی سلطنت تھی۔ (ب) حضرت داؤد کے بعد حضرت سلیمان ان کے وارث ہوئے سورت الانبیاء میں گزرچکا ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنی بری فون کے ساتھ بحری بیڑا بھی تیار کیا جودنیا کاسب سے بڑا طاقت ور بیڑا تھا اور انکوپرندوں کی منطق کا خصوصی علم دیا گیا اور وہ انکی تربیت کرکے اپنی فوج میں ان سے نامہ بری، خبر رسانی اور سراغ رسانی کا کام لیتے تھے گویا یہ پرندے ان کی فضائی فوج تھی اور اس سے انکار یاتاویل کی گنجائش نہیں، آخرہمارے زمانے میں کتوں سے بھی تو سراغ رسانی اور جاسوسی کا کام لیا جارہا ہے۔ (ج) ایک مرتبہ حضرت سلیمان نے اپنا لشکر پریڈ کے لیے جمع کیا تو وہ چلتے ہوئے، وادی النمل، چیونٹیوں کی وادی پر پہنچ گئے تو ایک چیونٹی نے اپنے دل کو خطرے سے آگاہ کیا کہ اے چیونیٹوا اپنے بلوں میں گھس جاؤ مبادا کہ سلیمان اور اس کی فوجیں تمہیں پامال کردیں۔ (د) امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، چیونٹی کا گفتگو کرنا عقلا مستبعد ہیں بلکہ قرآن مجید نے توبتایا کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیی مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکھتے اگر یہ تسبیح زبان حال سے ہو تو اسے تو ہم سمجھتے ہیں اور پھر فی زمانہ چیونٹیوں کے متعلق سائنس نے جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں ان کی بنا پر قرآن کے بیان کردہ واقعہ میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لہذا ان میں کسی قسم کی تاویل وتحریف کی ضرورت نہیں اس جگہ سلیمان کاتبسم خوشی اور سرور کے مفہوم میں ہے اس واقعہ سے اصل مقصد حضرت سلیمان کی شکرگزاری کا ذکر ہے مگر ہمارے زمانہ کے بعض ماڈرن، مفسرین، جنہیں قرآن مجید میں معجزات کے ذکر سے شرم آتی ہے اس آیت میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں کہ بنو نمل ایک قوم تھی جہاں سے حضرت سلیمان کا گزرا ہوا تھا اور یہ نہیں سوچتے کہ پھر حضرت سلیمان کے علم کی خصوصیت کیا رہ گئی جسے بڑی اہمیت سے قرآن مجید نے ذکر کیا ہے اور تاریخی طور پر بھی اس نام کا کوئی قبیلہ ثابت نہیں کیا جاسکتا اور حضرت سلیمان کی متعجبابہ ہنسی اور ان کے احساسات شکرگزاری کی اہمیت جسے قرآن بیان کررہا ہے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔