كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ
اصحاب الایکہ [١٠٤] (اصحاب مدین) نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا
(١١) آغاز سورۃ میں قرآن کی حقانیت کا بیان شروع ہوا تھا پھر اس سلسلہ میں کفار قریش کے نشانات کے مطالبہ کے جواب میں گزشتہ اقوام کے چند وقائع بطور عبرت کے ذکر فرمائے اب ان کے خاتمہ پر پھر سے وہی مضمون شروع ہوگیا۔ (الف) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کاتنزیل ربانی ہونا بالکل واضح ہے، اسے واضح عربی زبان میں اتارا ہے اور سابق صحیفوں میں اس کی پیش گوئی موجود ہے اور ان سے علمائے اسرائیل خوب آگاہ ہیں گوان کی اکثریت نے کتمان سے کام لیا، تاہم ان کے اندر ایسے علمائے حق پرست موجود ہیں جو برملا اس کا اظہار کررہے ہیں اور یہ نبی کی صداقت کے لیے کافی ہے اور اگر ہم اس کو عربی مبین کے بجائے کسی اور زبان میں نازل کرتے اور یہ پیغمبر ان کو پڑھ کرسناتا تو یہ اعتراض کرسکتے تھے کہ رسول عربی اور کلام عجمی لیکن اب کیا عذر پیش کریں گے؟ اس دور کی مکی سورتوں میں اکثر اس مضمون کو دہرایا گیا ہے، دیکھیے حم السجدہ آیت ٤٤، اور سورۃ نحل، ١٠٣۔ (ب) اس کے بعد نبی کو تسلی دی ہے اور عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کو تنبیہ کی ہے۔ (ج) آیت ٢١٠ سے مخالفین کے اوہام کی تردید ہے کہ یہ قرآن شیطان کا اتارا ہوا نہیں ہے کیونکہ اولا تو اس کے مضامین شیاطین کے مقصد کے خلاف ہیں اور پھر ایسا کلام اتارنے کی ان میں طاقت بھی کہاں ہے اس میں قریش کو ایک طرح کی تحدی ہے کہ اگر طاقت ہے تو تم بھی اپنے کاہنوں کو جمع کرکے ایسا کلام بنالاؤ مگر حقیقت یہ ہے کہ شیاطین توایسا کلام سننے سے ہی روک دیے گئے ہیں یہ مضمون بھی متعدد سورتوں میں مذکور ہے۔ (د) قرآن پر مخالفین کے شبہات کی تردید کے بعد نبی کو تبلیغ دعوت کے سلسلہ میں چند آداب تلقین کیے ہیں اور اسکے بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ دراصل شیاطین کا مہبط کون لوگ ہوسکتے ہیں اور شعراء کے کلام کی نوعیت وحیثیت کیا ہے۔ (ہ) پہلی آیات میں نبی کے کاہن ہونے کی تردید تھی اور آیت ٢٢٤ سے آپ پر شاعر ہونے کے الزام کی تردید ہے۔ (و) شاعر خواہ کتنا مشہور کیوں نہ ہو اس کے کلام سے تو اوباش اور عیاش قسم کے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس پیغمبر کے متبعین کو دیکھیے وہ شریف النفس اور نیک طینت لوگ ہیں، مبین تفاوت راہ کجاتا کجا۔ پھر بھی قرآن کو کلام شعری اور نبی کو شاعروں کو زمرہ میں شمار کرنا کس قدر ظلم کی بات ہے، اسے کیا کہیے؟۔ (ز) شاعروں کی شاعری بے مقصد ہوتی ہے وہ صرف اپنے واردات نفس کو ذہنی عیاشی کے لیے شعر کہتے ہیں، نیک وبد ہر قسم کے مضامین باندھتے پھرتے ہیں اور ان کے کلام سے تضاد فکری مترشح ہوتا ہے مگر قرآن کے مضامین پر غور کیجئے کہ اس کے سامنے ایک ہدف متعین ہے اور دلائل وبراہین سے اس کو ثابت کررہا ہے چھوٹی سورت ہو یابڑی قرآن نے اپنے ہدف سے سرموانحراف نہیں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ تئیس سالہ منزل شدہ کلام میں کسی قسم کے تضاد وتناقض کا شائبہ تک نہیں ہے۔ (ح) شاعر صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں، پھر کیا کسی انقلابی تحریک کی بنیاد شاعری پر رکھی جاسکتی ہے اور کسی صالح تحریک کا قائد شاعر ہوسکتا ہے؟ اس کے برعکس پیغمبر کی عملی زندگی دیکھیے کہ وہ قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ الغرض ان حقائق کی موجودگی میں نبی کو کاہن یا شاعر کے لقب سے یاد کرنا اور قرآن کو کسی کاہن اور شاعر کا مصنوع کلام قرار دینا بہت بڑا ظلم اور زیادتی ہے اور آن ظالموں کاجوانجام ہونے والا ہے وہ جلد ہی ان کے سامنے آجائے گا۔ آیت ٢٧٧ کے تحت مولانا آزاد لکھتے ہیں : ” مصلحین کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عدل الٰہی کے قیام کے لیے اپنی تمام قوتوں کو وقف کردیتے ہیں اور جب کبھی ان پر ظلم کیا جاتا ہے تو پتھر اور گھاس کی طرح بے حس وحرکت نہیں پڑے رہتے بلکہ انسانوں کی طرح اٹھتے ہیں اور ظالموں سے ان کے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں تاکہ ظالم کو سزا ملے اور عدل قائم ہو، اس بارے میں ان کا ارادہ اور فعل یکساں ہوتے ہیں جیسا کہتے ہیں کہ ویسا کرکے دکھادیتے ہیں ان کی زندگی کی بنیاد محض ارادہ ہی نہیں بلکہ عمل بھی ہوتا ہے۔