وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہوچکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی [٥٢] گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس بستی کا حال نہ دیکھا ہوگا ؟ لیکن (اصل معاملہ یہ ہے کہ) یہ لوگ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔
(٨) ان آیات میں حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ تک قوموں کی تاریخ اور ہلاکت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے ایک طرف تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے اور دوسری طرف مخالفین کو متنبہ کرنا ہے اقوام سابقہ کی سرگزشت بیان کرنے سے جو مقصد قرآن کے پیش نظر ہے اس پر مفصل بحث کے لیے ترجمان القرآن جلد دوم، سورۃ اعراف اور سورۃ ہود ملاحظہ کرلی جائے، ہم نے بھی اپنے مقالہ قصص القرآن میں تمام مباحث کا استیعاب کیا ہے۔