وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(منافقین) اللہ کی پختہ قسمیں کھا کر (رسول سے) کہتے ہیں کہ ''اگر آپ انھیں حکم دیں تو وہ ضرور (جہاد پر) نکلیں گے'' آپ ان سے کہئے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ مطلوب (قسمیں نہیں بلکہ) دستور کے مطابق [٨٠] اطاعت ہے'' اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر [٨١] ہے۔
(٣٩)۔ طاعۃ معروفہ۔ میں اگر، طاعۃ، کو مبتدا محذوف کی خبر قرار دیا جائے تو یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کی اطاعت جس پر یہ قسمیں کھارہے ہیں مشہور ومعلوم ہے یعنی منافقانہ طاعت ہے لیکن ہم نے طاعت کو مبتدا قرار دیا ہے اور اس کی خبر مقدر ٹھہرائی ہے، ای طاعۃ معروفہ اولی بکم من ایمانکم۔ کیونکہ یہ اس محل میں زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (٤٠)۔ سچے آدمی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی قسمیں کھاکھاکر اپنی سچائی کا یقین نہیں دلائے گا، وہ سیدھے سادھے طریقے پرایک بات کہہ دے گا اور سمجھے گا میں نے جو کچھ کہا ہے سچ ہے اور ضروری ہے کہ ہر آدمی اسے سچ ہی سمجھے۔ بکیش صدق وصفا حرف عہد بے کاراست۔ نگاہ اہل محبت تمام سوگند است۔ لیکن جس کے دل میں چور ہوگا وہ بات بات پر قسمیں کھائے گا اور دس دس مرتبہ اپنی سچائی کا یقین دلائے گا کیونکہ وہ جانتا ہے جو کچھ کہہ رہاں ہو سچ نہیں، اور کوئی وجہ نہیں کہ سننے والا بھی اسے سچ سمجھے۔ آیت ٥٣ میں منافقین کی اسی روش کا ذکر کیا ہے فرمایا، وہ قسمیں کھاکھاکر اپنی اطاعت وانقیاد کا یقین دلاتے ہیں حالانکہ ان کا عمل انہیں صاف جھٹلا رہا ہے ان سے کہہ دو، قسموں سے کچھ نہیں بنتا، اصل شے جو مطلوب ہے وہ عمل ہے۔ آگے چل کر سورۃ نون میں تمہیں بدکردار آدمیوں کاسب سے پہلا نمایاں وصف یہی ملے گا کہ وہ حلاف، ہوتے ہیں یعنی بہت قسمیں کھانے والے۔