وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
اور اگر تم پر (اے مسلمانو)! اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو ایسا معاملہ تم پر سخت پیچیدہ بن جاتا) اور اللہ تعالیٰ بڑا التفات فرمانے والا [١١] اور حکیم ہے (جس نے معافی کا یہ قاعدہ مقرر کردیا۔
(٦) جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو اس کو، حد قذف، نہیں لگے گی بلکہ وہ لعان کریں گے اور اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہوگا اور اس نوع کے احکام کا بیان کردینا محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ عورت اور مرد دونوں کے لیے رہائی کی صورت بیان کردی اور پھر تو، تواب رحیم، سے اشارہ فرمادیا کہ ان کے لیے توبہ اور انابت اللہ کا دروازہ کھلا ہے۔ آیت نمبر ٦ تا ٩ کے تحت مولانا آزاد لکھتے ہیں : اگر خود شوہر اپنی بیوی پر عیب لگائے اور کہے، میں نے خود دیکھا ہے مگر گواہ نہیں لاسکتا۔ تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟ آیت ٦ میں اس کے لیے لعان کا حکم دیا ہے۔ یعنی شوہر کو پانچ مرتبہ قسم کھاکراپنا دعوی دہرانا چاہیے۔ اور بصورت کذاب اپنے کو لعنت الٰہی کا مستوجب ٹھہرانا چاہیے۔ اگر بیوی اس کے جواب میں خاموش رہے گی تو الزام ثابت ہوجائے گا (اور) اگر اس نے بھی اسی طرح پانچ مرتبہ قسم کھالی تو پھر عدالت سے بری کردے گی اور اصلیت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ دنیا میں انسان کے مخفی اعمال کے لیے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔