الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ وہی نکاح کرے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ اور اہل ایمان پر یہ کام [٦] حرام کردیا گیا ہے۔
(٤)۔ آیت نمبر ٣ میں بتایا کہ اس قسم کے بدچلن لوگوں سے معاشرتی مقاطعہ کیا جائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ ان سے رشتہ داری قائم نہ کی جائے اور مشرکوں کی طرح ان کواسلامی معاشرہ کافرد ہی نہ بنایا جائے۔ یہاں آیت نمبر ٣ میں نکاح سے مقصود نکاح مصطلحہ شرع نہیں بلکہ لغوی ہے جیسا کہ (حتی تنکح زوجا غیرہ) میں مستعمل ہوا ہے یعنی اتحاد تناسلی کا معاملہ پس مطلب یہ ہوا کہ جس مرد کو زنا کا چسکا پڑجاتا ہے وہ زنا پیشہ عورت ہی سے رسم وراہ پیدا کرتا ہے اور جو عورت بدچلن ہوجاتی ہے وہ اپنے ہی طرح کے مرد کی خواہاں رہتی ہے مگر مومنوں کے لیے ایسے تعلقات یک قلم حرام کردیے گئے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مرد اور عورت سے زنا کا ارتکاب ہوگیا پھر اس سے نکاح شرعی کرنا جائز نہیں کیونکہ توبہ کیبعد ہر گناہ پاک ہوجاتا ہے اور اگر ایک زنا پیشہ فرد تائب ہوکرنکاح کرلے اور پاک دامنی کی زندگی بسر کرے تو اس سے زیادہ خوبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ زانی اور زانیہ کے ساتھ مشرک اور مشرکہ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ مشرکین عرب میں نکاح کے جو طریقے رائج تھے ان میں سے بعض صریح زنا تھے اور دونوں کا امتیازی خط زیادہ نمایاں نہ تھا پس اگر ایک مومن مرد کسی مومن عورت سے علاقہ پیدا کرنا چاہتا تو بجزاس کے کوئی صرت ہی نہ تھی کہ نکاح قطعی ہو۔ لیکن ایک مشرک عورت ہر طرح کے جاہلی طریقوں کے لیے آمادہ ہوجاتی تھی یہی حال مشرک مردوں کا تھا۔