سورة الحج - آیت 46

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہوجاتے جو کچھ سمجھتے سوچتے اور کان ایسے جن سے وہ کچھ سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل [٧٤] ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤٦) نے انسان کے ذہنی تعطل اور قلبی غفلت کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے؟ فرمایا اگر فہم و بصیرت کی ساری دلیلیں ان کے لیے بے سود ہیں تو کیا آنکھوں کا مشاہدہ بھی کچھ کام نہیں دیتا؟ کیا انہوں نے زمین میں سیر و گردش نہیں کی، حوادث و انقلابات عالم کے نتائج نہیں دیکھے؟ کیا ان کے کان بہرے ہوگئے کہ سن نہیں سکتے اور عقلیں ماری گئیں کہ سمجھ کام نہیں دیتی۔ پھر خود ہی ان سارے سوالوں کا جواب دے دیا کہ (فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور) اصل یہ ہے کہ جب کسی پر اندھے پن کا وقت آتا ہے تو آنکھوں کی بصارت نہیں جاتی، دل کی بصیرت جاتی رہتی ہے اور اسی کی بصیرت سے ساری بصارت ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے۔۔۔ کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے !