سورة الأنبياء - آیت 37

خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

انسان جلد باز مخلوق ہے عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھلا دوں گا لہٰذا جلدی کا مطالبہ [٣٥] نہ کرو۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قرآن نے جابجا انسانی طبیعت کے اس خاصہ کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی خواہشوں، رایوں اور اقدام عمل میں جلد باز واقع ہوا ہے۔ یہاں بھی آیت (٣٧) میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا : جن نتائج کے ظہور کی خبر دی جارہی ہے وہ عنقریب ظٓہر ہونے والے ہیں لیکن یہ منکر شور مچا رہے ہیں کہ فورا ظاہر کیوں نہیں ہوجاتے۔ اچھا تھوڑا سا انتظار اور کریں۔ بہت جلد سامنے آجائیں گے۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھینی چاہیے کہ اگر انسانی طبیعت میں جلد بازی ہے تو قرآن اس خاصہ کی مذمت نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کے نزدیک فطرت انسانی کا کوئی خاصہ بھی نفسہ برائی کے لیے نہیں ہے۔ (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم) ضروری تھا کہ اس کی طبیعت میں جلد بازی ہوتی۔ لیکن خواص یہی جلد بازی ہے جو اس کے اندر سعی عمل کا فوری ولولہ پیدا کرتی ہے اور اس کی ساری سرگرمیوں کے لیے ایک محرک کا کام دیتی ہے۔ لیکن خواص طبیعت کے ہر گوشہ کی طرح یہاں بھی اسے ٹھوکر اصل خاصہ کے تقاضا میں نہیں لگتی بلکہ اس کے بے محل اور بے اعتدالانہ استعمال میں لگتی ہے۔ اسے جہاں صبر کرنا چاہیے وہاں بے صبری کرنے لگتا ہے، اور جب فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تو بےدھڑک فیصلہ کردیتا ہے۔ پس قرآن انسان کی ہر گمراہی کی طرح اس گمراہی میں بھی سوء استعمال کی مذمت کرتا ہے نہ کہ طبیعت اور خواص طبیعت کی۔