لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دے دو جنہیں نہ تم نے ہاتھ لگایا ہو اور نہ ہی حق مہر مقرر کیا ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ البتہ انہیں کچھ نہ کچھ [٣٣٠] دے کر رخصت کرو۔ وسعت والا اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق انہیں بھلے طریقے سے رخصت کرے۔ یہ نیک آدمیوں پر حق ہے
اگر نکاح کے بعد شورہ اور بیوی میں کوئی تعلق نہ ہوا ہو، اور شوہر طلاق دے دے تو اس صورت میں مہر کے احکام اور عورتوں کی حق تلفی کی امکانی صورتوں کا تدارک : 1۔ اگر مہر کی رقم متعین نہ ہوئی ہو، تو اس صورت میں چاہیے مرد اپنے مقدور کے مطابق جس قدر دے سکتا ہے، دے دے۔ 2۔ اگر معین ہو، تو اس صورت میں آدھا مہر عورت کا حق ہوگا، اگر مرد اس سے زیادہ بھلائی کرسکے تو یہ تقوے اور فضیلت کی بات ہوگی۔ 3۔ اس اصولی حقیقت کی تلقین کہ نکاح کے معاملہ میں مرد کا ہاتھ عورت سے زیادہ قوی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ ہر معاملہ میں عفو و بخشش بھی اس کی طرف سے زیادہ ہو نہ کہ عورت کی طرف سے۔