سورة البقرة - آیت 213

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(ابتدا میں) سب لوگ ایک ہی طریق (دین) پر تھے (پھر انہوں نے آپس میں اختلاف کیا) تو اللہ نے انبیاء کو بھیجا جو خوشخبری دینے والے [٢٨١] اور ڈرانے والے تھے۔ ان انبیاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کرنے والی کتاب بھی نازل [٢٨٢] فرمائی تاکہ وہ لوگوں میں ان باتوں کا فیصلہ کر دے جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا۔ اور واضح دلائل آجانے کے بعد جن لوگوں نے اختلاف کیا تو (اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق بات کا علم نہ تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی) کہ ان میں ضد بازی اور انا کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ پھر جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے اذن سے ان اختلافی امور میں حق کا راستہ دکھا دیا۔ اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی قوم و جماعت تھے اور فطری زندگی کی سادی پر قانع تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت و وسعت سے طرح طرح کے تفرقے پیدا ہوگئے اور تفرقے کا نتیجہ ظلم و فساد کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تب وحی الٰہی نمودار ہوئی اور یکے بعد دیگرے خدا کے رسول مبعوث ہوتے رہے۔ ہر رسول کی دعوت کا مقصد ایک ہی تھا۔ یعنی خدا پرستی و نیک عملی کی تلقین اور تفرقہ و اختلاف کی جگہ وحدت و اجتماع کا قیام۔ کتاب اللہ ہمیشہ اس لیے نازل ہوئی۔ تاکہ دین کے تفرقہ و اختلاف میں فیصلہ کرنے والی ہو، اور لوگوں کو وحد دین کی اصل پر متحد کردے۔ تفرقہ و اختلاف کی علت باہمی "یعنی عصیان" ہے۔ یعنی آپس کی ضد اور اتباع حق کی جگہ خود پرستی اور سرکشی۔ اس محل میں اس ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ پیروان اسلام کو دعوت استقامت دیتے ہوئے پہلے بنی اسرائیل کے حالت سے استشہاد کیا تھا۔ اب واضح کیا جاتا ہے کہ صرف بنی اسرائیل ہی پر موقوف نہیں۔ تمام پچھلی جماعتوں کا یہی حال رہا ہے پس قیام حق کے تعلیم حق کی نہیں (کیونکہ وہ تو اول روز سے ایک ہی رہی ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے) بلکہ حق پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔