وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا
نیز ان کے لئے دنیا کی زندگی کی یہ مثال بیان کیجئے : جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہوگئی۔ پھر وہی نباتات ایسا بھس بن گئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر مکمل اختیار [٤١] رکھتا ہے۔
چنانچہ اس حقیقت کے لیے ایک مثال بیان کی، فرض کرو دو آدمی تھے ایک کو سب کچھ میسر تھا، دوسرے کو کچھ میسر نہ تھا، پہلا گھمنڈ میں آکر دوسرے کو حقیر سمجھتا اور کہتا میں تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور میری خوشحالی کبھی بگڑنے والی نہیں، دوسرا اسے سمجھاتا کہ ان خوش حالیوں پر مغرور نہ ہو، کون جانتا ہے ہل کے پل میں کیا سے کیا ہوجائے؟ چنانچہ ایک دن کیا ہوا کہ اس کے سارے باغ جن کی شادابیوں پر اسے ناز تھا اچانک اجڑ گئے اور وہ اپنی نامرادیوں پر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اس مثال میں خوشحال آدمی سے مقصود روسائے مکہ ہیں اور دوسرے آدمی سے مقصود مومنوں کی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ خوشحالیوں کے لیے باغوں کا تصور پیدا کیا گیا۔ عرب میں اس سے بڑھ کر تمول و خوشحالی کی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی تھی کہ شام کے تاکستانوں کی طرح باغ ہوں۔ گردا گرد کھجور کے درختوں کا احاطہ، وسط میں قدرتی نہر، نہر کے دونوں طرف لہلہاتی ہوئی کھیتیاں۔ پھر جو کچھ بھی ہو دنیا کی یہ خوشحالیاں ہیں کیا؟ محض چار گھڑی کی دھوپ، اس سے زیادہ انہیں قرار نہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی روئیدگی آسمان، آسمان سے پانی برستا ہے اور طرح طرحح کی سبزیوں اور لالیوں سے زمین کا گوشہ گوشہ بہشت زار ہوجاتا ہے۔ جس طرف نگاہ اٹھاؤ پھولوں کا حسن و جمال ہے یا دالوں اور پھلوں کا فیضان و نوال۔ لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ وہی کھیت جن کا ایک ایک درخت زندگی کا سرمایہ اور بخشش نوال کا کارخانہ تھا اچانک کس عالم میں نظر آنے لگتے ہیں؟ (ھشیما تذروہ الریاح) بھوسے کے زرے جنہیں ہوا کے جھونکے اڑا کے منتشر کردیتے ہیں۔ نہ کوئی انہیں بچانا چاہتا ہے نہ وہ کسی مصرف کے ہوتے ہیں، بہت کام دیں گے تو چولھے میں جلنے کے لیے ڈال دیے جائیں گے۔ انسان کی دنیوی زندگی اور اس کی جدوجہد کی یہ کیسی مثال ہے؟ جس پہلو سے بھی دیکھو گے اس سے بہتر مثال نہیں ملے گی۔ (ا) دنیوی زندگی کی دلفریبیاں جب نکھرتی ہیں تو ٹھیک ٹھیک ان کا ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ (ب) لیکن عارضی ہوتی ہیں۔ پائدار نہیں، قدرت نے جو وقت مقرر کر رکھا ہے جو نہی وہ پورا پوا پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ (ج) زمین ایک ہے، پانی بھی ایک ہی طرح کا ہے، روئیدگی بھی ایک ہی طرح پر ہوتی ہے، مگر پھل یکساں نہیں۔ یہی حال دنیوی زندگی کا ہے، زندگی ایک طرح کی ہے مگر ہر زندگی کا پھل یکساں نہیں، فطرت کی بخشش سب کی یکساں طور پر رکھوالی کرتی ہے مگر سب ایک طرح کا پھل نہیں لاتے، کوئی اچھا ہوتا ہے کوئی ناقص کوئی بالکل نکما۔ (د) عذاب و ثواب اور سعادت و محرومی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا، تم زمین میں کاشت کرتے ہو، لیکن کیوں کرتے ہو؟ دانے اور پھل کے لیے، پتوں اور شاخوں کے لیے نہیں، جب فصل پکتی ہے تو دانے لے لیتے ہو، جس میں تمہارے لیے نفع ہے، باقی سب کچھ چھانٹ دیتے ہو جس میں نفع نہیں، یہی حال دنیوی زندگی کا بھی ہے۔ فطرت نے وجود انسانی کی کاشت کی ہے اور اس لیے کی ہے کہ (ایکم احسن عملا) کون درخت ہے جو اچھے عمل کا پھل لاتا ہے، پس وہ پھل لے لیتی ہے، باقی جو کچھ بچ جاتا ہے چھانٹ دیتی ہے، تم سوکھی شاخوں اور پتوں کو کیا کرتے ہو؟ چولھے میں جلاتے ہو، اس نے بھی ایک چولھا گرم کر رکھا ہے اسی کا نام دوزخ ہے۔ قرآن کا یہ اسلوب کیوں ہوا کہ ایک ہی مطلب بار بار دہرایا جاتا ہے اور مختلف موقعوں پر اور مختلف شکلوں میں ایک ہی بات لوٹ لوٹ کر آتی ہے؟ ایسا نہ ہوا کہ ہماری علمی کتابوں کی طرح ضبط و ترتیب کے ساتھ تمام مطالب مدون کردیے جاتے؟ قرآن خود اس بات کو جابجا آیتوں، مثالوں اور نصیحتوں کی تصریف سے تعبیر کرتا ہے یعنی لوٹا لوٹا کر بیان کرنے سے، چنانچہ یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے اور ان مقامات پر غور کرنے سے اس کے اسلوب بیان کی علت واضھ ہوجاتی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت (٤١) میں گزر چکا ہے : (ولقد صرفنا فی ھذا القرآن لیکذکروا) یعنی قرآن میں مطالب کا لوٹ لوٹ کر بیان میں آنا اس لیے ہے کہ تذکیر و موعظت کا ذریعہ ہو، پس معلوم ہوا اس اسلوب بیان کی علت تذکیر ہے۔ اس بات پر غور کرتے جاؤ قرآن کے اسلوب بیان کے سارے بھید کھلتے جائیں گے قرآن کا مقصد تذکیر تھا، اور تذکیر کا مقصد اسی طرح حاصل ہوسکتا تھا کہ اسلوب بیان ایک واعظ و خطیب کی موعظت کا ہو، ایک فلسفی کے درس کا نہ ہو۔