سورة الكهف - آیت 13

نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتاتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انھیں مزید [١٢] رہنمائی بخشی۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

دو جماعتوں سے مقصود اصحاب کہف اور ان کی قوم و ملک کے لوگ ہیں۔ یہ گویا اس تمام معاملہ کا ماحصل ہے اس کے بعد کی ضروری تفصیلات آتی ہیں۔ چنانچہ آیت (١٣) میں فرمایا : (نحن نقصد لیک نباھم بالحق) (ا) ایک گمراہ اور ظالم قوم سے چند حق پرست نوجوانوں کا کنارہ کشی کرلینا اور ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پوشیدہ ہوجانا، ان کی قوم چاہتی تھی انہیں سنگ سار کردے یا جبرا اپنے دین میں واپس لے آئے۔ انہوں نے دنیا چھوڑ دی مگر حق سے منہ نہ موڑا۔ (ب) وہ جب غار میں اٹھے تو اس کا اندازہ نہ کرسکے کہ کتنے عرصہ تک یہاں رہے ہیں، انہوں نے اپنا ایک آدمی شہر میں کھانا لازنے کے لیے بھیجا اور کوشش کی کہ کسی کو خبر نہ ہو لیکن حکمت الہی کا فیصلہ دوسرا تھا، خبر ہوگئی اور یہ معاملہ لوگوں کے لیے تذکیر و عبرت کا موجب ہوا۔ (ج) جس قوم کے ظلم سے عاجز ہو کر انہوں نے غار میں پناہ لی تھی وہی ان کی اس درجہ معتقد ہوئی کہ ان کے مرقد پر ایک ہیکل تعمیر کیا گیا۔ (د) اس واقعہ کی تفصیلات لوگوں کو معلوم نہیں، طرح طرح کی باتیں مشہور ہوگئی ہیں، بعض کہتے ہیں وہ تین آدمی تھے۔ بعض کہتے ہیں پانچ تھے، بعض کہتے ہیں سات تھے۔ مگر یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔ حقیقت حال اللہ ہی کو معلوم ہے اور غور کرنے کی بات یہ نہیں ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی؟ دیکھا چاہیے کہ ان کی حق پرستی کا کیا حال تھا؟