الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ
سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے [١۔ الف] بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔
سچائی کے لیے دنیا کی عالمگیر تعبیر یہ ہے کہ وہ سیدھی بات ہے، اس میں ٹیڑھ پن نہیں۔ جس بات میں کجی ہو، پیچ و خم ہو، الجھی ہو، وہ سچائی کی بات نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے سعادت کی راہ کو صراط مستقیم سے تعبیر کیا اور ہر جگہ وہ اپنا وصف یہ بیان کرتا ہے کہ اس میں کوئی بات بھی کجی کی بات نہیں ہے، وہ اپنی ہر بات میں دنیا کی زیادہ سے زیادہ سیدھی بات ہے۔ چنانچہ اس سورت کی ابتدا میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس کے نزول کا مقصد واضح کیا کہ تبشیر اور تنذیر ہے، کیونکہ ہدایت وحی جب کبھی ظاہر ہوئی ہے اسی لیے ظاہر ہوئی ہے کہ ایمان و عمل کے نتائج کی بشارت دے انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کردے۔ یہ سورت بھی مکی عہد کی آخری سورتوں میں سے ہے، یہ وہ وقت تھا کہ منکروں کی سرکشی انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی، اور پیغمبر اسلام کا قلب مبارک لوگوں کی شقاوت و محرومی کے غم سے بڑا ہی دلگیر ہورہا تھا، ان کے جوش دعوت و اصلاح کا یہ حال تھا کہ چاہتے تھے ہدایت گھونٹ بنا کر پلا دوں، اور منکروں کا یہ حال تھا کہ سیدھی سے سیدھی بات بھی ان کے دلوں کو نہیں پکڑتی تھی۔ انبیاء کرام ہدایت و اصلاح کے صرف طالب ہی نہیں ہوتے، عاشق ہوتے ہیں۔ انسان کی گمراہی ان کے دلوں کا ناسور ہوتی ہے اور انسان کی ہدایت کا جوش ان کے دل کے ایک ایک ریشہ کا عشق، اس سے بڑھ کر ان کے لیے کوئی غمگینی نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان سائی سے منہ موڑ لے۔ اس سے بڑھ کر ان کے لیے کوئی شادمانی نہیں ہوسکتی کہ ایک گمراہ قدم راہ راست پر آجائےْ قرآن میں اس صورت حال کی جابجا شہادتیں ملتی ہیں۔ یہاں آیت (٦) میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی یہ گمراہی عجب نہیں تجھے شدت غم سے بے حال کردے لیکن جو گمراہی میں ڈوب چکے ہیں وہ کبھی اچھلنے والے نہیں، پھر اس کے بعد آیت (٧) میں واضح کیا ہے کہ قانون الہی اس بارے میں ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ یہ دنیا آزمائش گاہ عمل ہے۔ یہاں جو چیز کارآمد نہیں ہوتی چھانٹ دی جاتی ہے۔ پس جن لوگوں نے اپنی ہستی خراب کردی ہے ضروری ہے کہ وہ چھانٹ دیے جائیں۔ ان کی محرومی پر غم کرنا لاحاصل ہے۔