ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(اے نبی)! آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت [١٢٨] اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے
آیت (١٢٥) میں واضح کیا ہے کہ دعوت الی الحق کا طریقہ کیا ہے ؟ فرمایا سرتا سر حکمت اور موعظہ حسنہ ہے حکمت یعنی دانائی کی باتیں۔ موعظہ حسنہ یعنی پندو نصیحت کی باتیں جو حسن وخوبی کے ساتھ کی جایئیں۔ اس کے بعد فرمایا (وجادلھم بالتی ھی احسن) اور اگر بحث و نزاع کرنی پڑے تو کرسکتے ہو لیکن ایسی ہی بحث و نزاع جو نہایت اچھے طریقہ پر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعوت حق کا طریقہ حکمت اور موعظ حسنہ کا طریقہ ہے، اور بحث و نزاع کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ احسن طریقہ پر ہو۔ پس ہر بحث و نزاع جو احسن طریقہ پر نہ ہو دعوت کا طریقہ نہیں ہوگی۔ احسن طریقہ سے مقصود کیا ہے ؟ یہ کہ مقصود طلب حق ہو، اپنی بات کی پچ نہ ہو، مخالف کے اندر یقین پیدا کرنا ہو، اسے باتوں سے ہرانا نہ ہو، اگر وہ چپ ہوگیا اور دل کا کانٹا نکلا تو بحث سے کیا فائدہ ہوا؟ ایسا اسلوب، ایسا طریق خطاب، ایسا لب و لہجہ، اس طرح کے الفاظ اختیار نہ کیے جائیں جو مخالف کے دل کو دکھ پہنچانے والے ہوں یا اسے سننے والوں کی نظروں میں زلیل ورسوا کرنے والے ہوں۔ کیونکہ اگر بحث سے مقصود عوت حق ہے تو مخاطب کے دل کو نرمی سے محبت سے حق کی طرف متوجہ کرنا چاہیے نہ یہ کہ صدمہ پہنچانا، ضد میں لانا اور جوش نفرت سے بھر دینا۔ بدقسمتی سے دنیا میں طلب حق کی راہ بھی محض جدل و نزاع کیر اہ بن گئی ہے۔ ہم اپنے دنیوی اغرض و مقاصد کے لیئے لڑنے جھگڑنے کے عادی ہیں جب کبھی کوئی ایسا جھگڑا پیش آجاتا ہے تو صرف اپنی جیت ہی کے لیے لڑتے ہیں۔ اس خیال سے نہیں لڑکے کہ حق و انصاف کیا ہے؟ اکثر اوقات خود ہمارا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ ہم برسر حق نہیں ہیں اور انصاف مخالف کے ساتھ ہے لیکن چونکہ اپنا مطلب کسی نہ کسی طرح حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے کبھی اعتراف حقیقت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حق اور انصاف ہم سے جس قدر الگ ہوتا جاتا ہے بحث و نزاع کی سرگرمی اتنی ہی زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔ اگر ہمارا مقدمہ سب سے زیادہ کمزور ہوگا تو ہم خیال کریں گے کہ ہماری بحث و نزاع کی سرگرمی سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کم از کم دین کے معاملہ میں ہم ایسا نہ کرتے۔ دنیوی معاملات میں کچھ نہ کچھ لینا دینا ہوتا ہے اس لیے غرض پرست آدمی اپنی ابت کی پچ کرتا ہی رہے گا۔ لیکن دین کی راہ لین دین کی راہ نہیں ہے سچ کو سچ مان لینے کی راہ ہے۔ اور جونہی ہم نے کسی بات کو سچ نہ سمجھ کر بھی سچ ثابت کرنا چاہا، دین کی راہ نہ رہی، عین اس کی ضد ہوگئی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم نے سچائی کے کام کو بھی جھوٹ کا کاروبار بنا دیا ہے۔ ہم دین کے بارے میں بھی ٹھیک اسی طرح جھگڑتے ہیں جس طرح دنیا کے معاملات میں، ہم جب کبھی کسی سے بحث کریں گے تو ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں گزرے گا کہ اس راہ میں اصل مقصود طلب حق ہے اور جونہی حق سامنے آجائے ہمارا فرض ہے کہ اعتراف کرلیں، بکہ بحث کریں گے ہی، اس لیے کہ اپنی اور اپنے فریق کی بات منوانی ہے اور خواہ کچھ ہو فریق مخالف کو ہرانا ہے۔ اگر دیکھیں گے کہ حق اور معقولیت ہمارے ساتھ نہیں ہے، تو غیر متعلق باتوں پر زور دینے لگیں گے، بدزبانی پر اتر آئیں گی، مارنے مرنے کے لیے تیار ہوگے اور پھر کہیں گے کہ ہم جیت گئے۔ قرآن کہتا ہے یہ جدل کا طریقہ ہے۔ دعوت کا طریقہ نہیں ہے اور دین کی راہ دعوت کی راہ ہے، جدل کی نہیں ہے۔ اگر جدل کرنا ہی پڑے تو صرف اسی حالت میں کیا جاسکتا ہے کہ احسن طریقہ پر ہو، یعنی راست بازی، دیانت، شیریں زبانی، اور شائستگی کے ساتھ کیا جائے۔ آگے چل سورۃ عنکبوت میں بھی تمہیں یہی حکم ملے گا : (ولا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن)