وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بناچکے ہو [٩٤] جو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے
اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ ایک خاص معاملہ پر زور دیا جو عموما طرح طرح کی لغزشوں کا باعث ہوتا ہے اور مسلمانوں کو بحیثیت ایک جماعت کے سب سے زیادہ اس میں سرگرم و استوار ہونے کی ضرورت تھی۔ یعنی ایفائے عہد پر، جب تم نے کسی فرد سے یا جماعت سے کوئی قول و قرار کرلیا تو اب یہ قرآن کے نزدیک عہد اللہ ہوگیا۔ یعنی ایسا عہد جس کے لیے تم اللہ کے آگے ذمہ داری ہوگئے، اگر تم نے اسے پورا نہیں کیا تو اللہ کے آگے جوابدہ ہوگے۔ چنانچہ فرمایا (واوفوا بعھد اللہ اذا عاھدتم) عہد و میثاق کے معاملات میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ ناک معاملہ جماعتوں کے معاہدوں کا ہے، اور اسی میں اس کی اصلی آزمائش ہے افراد بحیثیت فرد کے بہت کم عہد شکنی کرتے ہیں اور کریں تو اس کے نتائج شخصی دائرہ سے باہر نہیں جاتے، لیکن جماعتیں بحیثیت جماعت کے اکثر عہد شکن ہوتی ہیں اور اس کے نتائج سینکڑوں ہزاروں افراد کے حصہ میں آتے ہیں۔ بسا اوقات ایک جماعت کے افراد کبھی گوارا نہیں کریں گے کہ اپنی انفرادی زندگی کے معاملات میں عہد شکنی کا عار گوارا کریں۔ لیکن اگر انہی لوگوں کو بحیثیت ایک جماعت، قوم اور حکومت کے بدعہدی کرنی پڑے تو لمحہ کے لیے بھی اس میں تامل نہیں کریں گے اور اسے جماعتی کام جوئی فتح مندی کی ایک ہشیاری اور دانشمندی سمجھیں گے۔ خصوصا اگر بدعہدی کسی ایسے گروہ کے ساتھ کرنی پڑے جس سے دشمنی اور لڑائی ہو۔ آج بیسیویں صدی میں دنیا کی متمدان اقوام کا سیاسی اخلاق ہمارے سامنے ہے۔ ان کے جو افراد چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ وعدہ خلاف ثابت ہوں، قومی اور سیاسی معاملات میں ہر طرح کی بدعہدیاں اور خلاف ورزیاں جائز سمجھتے ہیں اور تاریخ کے اوراق کو آج تک اس کی مہلت نہیں ملی کہ سیاسی معاہدوں کی شکست کی افسانہ سرائی سے فارغ ہوجائے۔ ایک انگریز، ایک فرنچ، ایک جرمن کی انفرادی زندگی کی سیرت (کیرکٹر) دیکھو، وہ اپنے وعدں میں سچا اور اپنے قول و قرار میں بے داغ ہوگا۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر توہین کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اس کے وعدہ میں شک کیا جائے، لیکن انہی افراد کا مجموعہ جب ایک جماعتی ذہنیت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور قومی اور سیاسی معاہدوں کی پابندی اس کی خود غرضانہ کام جوئیوں کی راہ میں حائل ہونے لگتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟ کیا ایک لمحہ کے لیے بھی یہ انفرادی سیرت جماعتی بدعہدی کی راہ روک سکتی ہے؟ نہیں بلکہ سب سے بڑا مدبر انسان وہی سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ عہد شکنیوں میں بے باک ہو۔ جس جماعت کے افراد ایک فرد واحد کے ساتھ بد عہدی کرنا گوارا نہیں کرسکتے وہ لاکھوں کروڑوں افراد کے ساتھ بدعہدی کرنے میں کوئی بداخلاقی محسوس نہیں کرتے۔ ہندوستان میں انگریز اقتدار کی تخم ریزی اس وقت شروع ہوئی جبکہ انگریزی قوم کی قومی سیرت اپنے بہترین سانچوں میں ڈھل رہی تھی اور ان کا اخلاقی پیمانہ ٠ روز بروز اونچا ہورہا تھا۔ یعنی اٹھارویں صدی کے اوائل میں، لیکن ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں، ہم صرف ہندوستان کی گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ ہی میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس بارے میں انگریزی قوم کے جماعتیں اخلاق کا معیار کیا رہا ہے ؟ ہر معاہدہ جو طاقتور فریق کے ساتھ کیا گیا اور وہ طاقتور رہا، معاہدہ تھا، ہر معاہدہ جو کمزور فریق کے ساتھ کیا گیا اور وہ کمزور ہی رہا، معاہدہ نہ تھا۔ امی چند، میر جعفر، میر قاسم، شاہ عالم، راجہ چیت سنگھ، نواب فیض اللہ، سعادت علی خاں، نظام علی خاں، برار، جے پور، میران سندھ کے لیے معاہدے کچھ مفید نہ ہوسکے۔ لیکن حیدر علی ہلکر اور رنجیت سنگھ کے معاہدوں کی اخلاقی قدرو قیمت سے انکار نہیں کیا گیا۔ جماعتیں معاہدے اگر پورے کیے جاتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ کہ معاہدے ہیں اور معاہدوں کاپورا کرنا ضروری ہے بلکہ اس لیے کہ طاقتور فریق سے کیے گئے ہیں اور ان کی شکست مفید ہونے کی جگہ مضر ہوگی۔ عہد جاہلیت میں عربوں کا بھی یہی حال تھا۔ وہ وفائے عہد کی اخلاقی قیمت سے بے خبر نہ تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے اور اپنے قبیلہ کے مفاخر میں سب سے زیادہ نمایاں جگہ وفائے عہد ہی کو دیتے تھے لیکن جہاں تک جماعتی معاہدوں کا تعلق ہے وفائے عہد کا عقیدہ کوئی عملی قدرت و قیمت نہیں رکھتا تھا۔ آج ایک قبیلہ ایک قبیلہ سے معاہدہ کرتا تھا، کل دیکھتا تھا کہ اس کے مخالف زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں تو بے دریغ اس سے جا ملتا تھا اور معاہد و حلیف پر حملہ کردیتا تھا۔ اگر کسید شمن فریق سے امن کا معاہدہ کرتے اور پھر دیکھتے کہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع پیدا ہوگیا ہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی معاہدہ کا احترام انہیں حملہ کردینے سے نہیں روکتا تھا۔ اور بے خبر دشمن پر جاگرتے۔ لیکن قرآن راست بازی کی جو روح پیدا کرنی چاہتا تھا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ بد اخلاقی گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے وفائے عہد اور احترام مواثیق کا جو معیار قائم کیا ہے وہ اس درجہ بلند، قطعی، بے لچک اور عالمگری ہے کہ انسانی اعمال کا کوئی گوشہ بھی اس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہتا ہے فرد ہو یا جماعت، ذاتی معاملات ہوں یا سیاسی، عزیز ہو یا اجنبی، ہم قوم و مزہب ہو یا غیر قوم و مذہب، دوست ہو یا دشمن، امن کی حالت ہو یا جنگ کی، لیکن کسی حال میں بھی عہد شکنی جائز نہیں۔ وہ ہر حال میں جرم ہے، معصیت ہے، اللہ کے ساتھ ایک بات کر کے اسے توڑ دینا ہے، عذاب عظیم کا اپنے کو مستحق ثابت کرنا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا وفائے عہد پر زور دیا ہے اور جہاں کہیں مومنوں کے ایمانی خصائل کی تصویر کھنینچی ہے یہ وصف سب سے زیادہ ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ (والموفون بعھدھم اذا عاھدوا) (والذین ھم لاماناتھم وعھدھم راعون) اور احادیث میں ہر جگہ منافق کی یہ پہچان بتلائی گئی ہے کہ (اذا وعد اخلف) (صحیحین) جب وعدہ کرے گا، پورا نہیں کرے گا۔