شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت [٢٣٦] اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرسکتا ہے (کیونکہ) اللہ تمہارے ساتھ نرمی کا [٢٣٧] برتاؤ چاہتا ہے سختی کا نہیں چاہتا۔ (بعد میں روزہ رکھ لینے کی رخصت اس لیے ہے) کہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کے شکرگزار [٢٣٨] بنو
روزہ کے لیے رمضان کا مہینہ اس لیے قرار پایا کہ اسی مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے اور اس کا روزے کے لیے مخصوص ہوجانا نزول قرآن کی یاد آوری و تذکیر ہے دین حق میں اصل آسانی ہے نہ کہ سختی۔ پس یہ سمجھنا کہ اس طرح کی عبادتوں میں سختی و تنگی اختیار کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہوگا صحیح نہیں ہوسکتا۔