لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھر [٢٢١] لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اور اللہ سے محبت [٢٢١] کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں کو اور غلامی سے نجات دلانے کے لیے دے۔ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے۔ نیز (نیک لوگ وہ ہیں کہ) جب عہد کریں تو اسے پورا کریں اور بدحالی، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں۔ ایسے ہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں
دین حق کی اس اصل عطیم کا اعلان کہ سعادت و نجات کی راہ یہ نہیں ہے کہ عبادت کی کوئی خاص شکل یا کھانے پینے کی کوئی خاص پابندی یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات اختیار کرلی جائے۔ بلکہ وہ سچی خدا پرستی اور نیک عملی کی زندگی سے حاصل ہوتی ہے اور اصلی شے دل کی پاکی اور عمل کی نیکی ہے۔ شریعت کے ظاہری احکام و رسوم بھی اسی لیے ہیں تاکہ یہ مقصود حاصل ہو۔ نزول قرآن کے وقت دنیا کی عالمگیر مذہبی گمراہی یہ تھی کہ لوگ سمجھتے تھے دین سے مقصود محض شریعت کے ظواہر و رسوم ہیں۔ اور انہی کے کرنے نہ کرنے پر انسان کی نجات و سعادت موقوف ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے اصل دین خدا پرستی اور نیک عملی ہے اور شریعت کے ظاہر رسوم و اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصود حاصل ہو۔ پس جہاں تک دین کا تعلق ہے ساری طلب مقاصد کی وہنی چاہیے نہ کہ وسائل کی۔