وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ
اور ہر شیطان مردود سے اسے محفوظ کردیا
آیت (١٧) سے معلوم ہوتا ہے کہ اجرام سماوی کی حفاظت کا سامان نہ کردیا گیا ہوتا تو ایسی شیطانی قوتیں تھیں جو ان کے اعمال میں خلل انداز ہوتیں، نیز یہ کہ جب کوئی ایسی قوت ٹوہ لگانا چاہتی ہے تو شعلے بھڑکتے ہیں اور انہیں قریب نہیں آنے دیتے۔ آیت میں شہاب مبین کا لفظ اایا ہے، شہاب شعلہ کو کہتے ہیں ِ لیکن چونکہ اس کا اطلاق اس ستارے پر بھی ہوتا ہے جو راتوں کو ٹوٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس لیے مفسرین نے خیال کیا یہاں شہاب سے مقصود وہی ستاروں کا ٹوٹنا ہے لیکن قرآن میں کوئی ایسی تفصیل نہیں جس سے یہ بات متعین کی جاسکے۔ صرف شہاب کا لفظ ہے اور اس کے معنی شعلے کے ہیں۔ باقی رہی اس معاملہ کی حقیقت تو یہ عالم غیب کے معاملات میں سے ہے جسے ہم اپنے وسائل علم و اداراک سے معلوم نہیں کرسکتے۔ وحی الہی نے جس قدر تصریح کردی ہے اس پر یقین کرنا چاہیے اور مزید کاوش میں نہیں پڑنا چاہیے۔ زمین گیند کی طرح گول ہے لیکن حکمت الہی نے اس کی کرویت کا نشیب و فراز اس طرح پھیلا دیا ہے کہ کوئی آنکھ اونچ نیچ محصوس نہیں کرسکتی اور اس کا ہر گوشہ اپنی جگہ ایک بچھے ہوئے فرش کی طرح مسطح ہے۔ اگر سطحیت کی یہ حالت پیدا نہ ہوتی تو وہ تمام ارضی خصوصیات بھی ظہور میں نہ آتیں جنہوں نے زمین کو زندگی کی معیشت کے لیے خوشگوار بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جابجا اس کی سطح کے پھیلاؤ پر زور دیتا ہے اور کہتا ہے خدا نے اسے فرش کی طرح بچھا دیا، یہاں بھی آیت (١٩) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن زمین کے قابل معیشت و سکون ہونے کے لیے صرف اسی قدر کافی نہ تھا۔ اس کی بھی ضرورت تھی کہ اس میں جابجا ایسی بلندیاں ہوتی جو پانی کے خزانے جمع کرتیں اور پھر بلندی سے اس طرح گراتیں کہ سینکڑوں کو سوں تک بہتا ہوا چلا جاتا اور میدانی علاقوں کو سرسبز و شاداب کردیتا، پس فرمایا : (والقینا فیھا رواسی) ہم نے اس کی سطح پھیلا دی، پھر اس میں پہاڑ پیدا کردیے جو اس لحاظ سے بھی کہ طرح طرح کی معدنیات کا سرچشمہ ہیں، اور اس لحاظ سے بھی کہ دریاؤں کی روانی کا منبع ہیں زمین کی افادی نوعیت کے لیے ایک ضروری عنصر تھے۔