اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس (پانی سے) تمہارے کھانے کو پھل پیدا کئے نیز تمہارے [٣٧] لئے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے سمندر میں رواں ہو اور دریاؤں کو بھی تمہارے لئے مسخر کردیا۔
آیت (٣٢) میں برہان ربوبیت کا استدلال ہے۔ فرمایا اپنی زندگی کی احتیاجوں کو دیکھو اور پھر ربوبیت الہی کی بخششوں اور کارر فرمائیوں پر نظر ڈالو، زندگی کی کوئی قدرت احتیاج ایسی ہیں ہے جس کا قدرتی انتظام نہ کردیا گیا ہو اور کارخانہ عالم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو تمہارے لیے افادہ و فیضان نہ رکھتا ہو۔ حتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز صرف اسی لیے بنی ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کردے اور کسی نہ کسی شکل میں خدمت و نفع رسانی کا ذریعہ ہو۔ پھر کیا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی ارادہ کے ظہور میں آگیا ہو اور کوئی ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو۔ اور اگر ایک ہستی موجود ہے تو ہر طرح کی عبادتوں کی مستحق اس کی ذات ہے یا ان کی جو اپنی احتیاجوں میں خود کسی پروردگار کی پروردگاریوں کے محتاج ہیں؟