قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
رسولوں نے انھیں کہا: ’’کیا اس اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ معاف کر دے اور ایک معین عرصہ [١٤] تک تمہیں مہلت بھی دیتا ہے‘‘ وہ کہنے لگے : ’’تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، تم چاہتے یہ ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے۔ ہمارے [١٥] پاس کوئی واضح معجزہ تو لاؤ‘‘
آیت (١٠) پر غور کرو، قوموں کا ہمیشہ یہی جواب رہا کہ ہمیں تمہاری دعوت کی سچائی میں شک ہے ہم نہیں مانتے لیکن پیغمبروں کی پکار بھی یہی رہی ہے کہ (افی اللہ شک فاطر السموات والارض) کس بارے میں تمہیں شک ہورہا ہے ؟ اللہ کے بارے میں جو آسمان و زمین کا بنانے والا ہے ؟ یعنی اس ہستی کے بارے میں جس کا اعتقاد تمہاری طرف فطرت کے خمیر میں موجود ہے اور تمہارے دل کا ایک ایک ریشہ کہہ رہا ہے کہ ایک (فاطر السموات والارض) ہستی موجود ہے؟ دنیا کی ہر بات میں تم شک کرسکتے ہو لیکن اس بارے میں تم شک نہیں کرسکتے، تم کیونکر جرات کرسکتے ہو کہ اپنے دل کے یقین سے انکار کردو، اپنی روح کے اعتقاد سے منکر ہوجاؤ، خود اپنی نسبت شک کرنے لگو؟ یہ قرآن کی معجزانہ بلاغت ہے کہ صرف ایک چھوٹے سے جملے اور استفہام تقریری میں وہ سب کچھ بیان کردیا جو زیادہ سے زیادہ اس بارے میں کہا جاسکتا ہے اور جو استدلال کی اتنہا، اثبات کی تکمیل، اور سارے برہانوں اور حجتوں کا جامع و مانع خلاصہ ہے۔ یعنی (افی اللہ شک شک فاطر السموات والارض) (تفصیل کے لیے دیکھو تفسیر سورۃ فاتحہ)