ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
(اے نبی )! یہ ( قصہ بھی) غیب کی خبروں سے ہے جس کو ہم آپ کی طرف [٩٧] وحی کر رہے ہیں۔ آپ اس وقت ان کے پاس تو نہیں تھے۔ جب برادران یوسف نے ایک بات پر اتفاق کرلیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی مکارانہ سازش کر رہے تھے
سورت کا خاتمہ : سرگزشت ختم ہوگئی۔ اب آیت (١٠٢) سے خطاب پیغمبر اسلام کی جانب ہے اور دعوت حق کی بعض مہمات واضح کی ہیں : (ا) اس سرگزشت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ سرتا سر غیب کی باتیں ہیں، اگر وحی الہی کا فیضان نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس واقعہ کی ایک ایک جزئیات پر تم مطلع ہوتے اور دنیا کے آگے اس طرح پیش کردیتے، یہ ظاہر ہے کہ واقعہ تم سے دو ہزار سال پہلے کا ہے اور دنیا میں گزشتہ واقعات کے علم و سماعت کے جتنے وسائل ہوسکتے ہیں ان میں سے کوئی وسیلہ بھی تمہارے لیے موجود نہیں ن اور اگر موجود بھی ہو تو یہ قطعی ہے کہ اس باب میں کچھ مفید نہیں ہوسکتا۔ (ب) لیکن کیا منکرین حق تمہاری سچائی کی یہ دلیل واضح دیکھ کر ایمان لے آئیں گے؟ نہیں تم کتنا ہی چاہو، جو ماننے والے ہیں وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ (ج) خدا کی کائنات تو سرتا سر حقیقت کی نشانی ہے، آسمان و زمین کا کون سا گوشہ ہے جو اس کی نشانیوں سے خالی ہے اور شب و روز انسان کو دعوت و فکر و عبرت نہیں دے رہا ہے؟ بایں ہمہ بندگان غفلت کا کیا حال ہے ؟ یہ ہے کہ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نگاہ اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات میں آسمان و زمین کی نشانیوں پر توجہ دلائی ہے اور ان کے مطالعہ و تفکر کو معرفت حق کا سرچشمہ ٹھہرایا ہے اور یہی بات اس کے تمام استدلال کا مبدء و اساس ہے۔ چنانچہ پچھلی سورتوں کے نوٹوں میں اس طرف اشارات گزر چکے ہیں اور تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ کرنا چاہیے۔