سورة یوسف - آیت 87

يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کی سرتوڑ کوشش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید [٨٤] نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے ناامید تو کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس کے بعد حضرت یعقوب کا کہنا کہ مایوس ہو کر نہ بیٹھو رہو، جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ، واضح کردیتا ہے کہ وحی الہی کا اشارہ ہوچکا تھا اور وہ سمجھ چکے تھے شمیم یوسف اسی رخ سے آنے والی ہے، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ یوسف کا نام ان کی زبان سے نکلتا، کیونکہ جو معاملہ پیش آیا تھا بنیامین کا تھا۔ یوسف کا نہ تھا۔ چنانچہ آگے چل کر آیت (٩٦) سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، جب حضرت یوسف کا کرتا اور پیام پہنچا تو انہوں نے کہا : (الم اقل لکم انی اعلم من اللہ ما لا تعلمون) ایک طرف تو یہ حالات پیش آرہے تھے، دوسری طرف قحط کی شدتیں بھی روز بروز بڑھتی جاتی تھیں، پس بھائیوں نے مصر آکر جو کچھ حضرت یوسف سے کہا وہ اپنے دوبارہ آنے کا بہانہ نہ تھا، بلکہ واقعی مصیبت کی سچی داستان تھی، جب حضرت یوسف نے یہ حالات سنے اور دیکھا کہ ان کے بھائی ان کے سامنے کھڑے خیرات کی بھیک مانگ رہے ہیں تو جوش رحم و محبت سے بے اختیار ہوگئے اور اپنے آپ کو ظاہر کردیا، جب انہوں نے کہا تمہیں یاد ہے تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا تھا؟ تو بھائی چونک اٹھے کہ عزیز مصر یوسف کا ذکر اس طرح کیوں کر رہا ہے؟ اور اب جو اس اکی صورت اور آواز پر غور کیا تو صاف نظر آگیا کہ یہ تو بالکل یوسف کی سی ہے۔ پس حیران ہو کر بول اٹھے : (انک لانت یوسف؟) قرآن نے اس موقعہ کا سارا مکالمہ صرف دو جملوں میں بیان کردیا ہے۔ ایک حضرت یوسف کا ہے، دوسرا بھائیوں کا ہے، لیکن غور کرو، موقعہ کی طبیعت حال کا کونسا پہلو ہے جو ان دو جملوں کے اسلوب بیان اور لب و لہجہ میں نہیں آگیا؟ بھائیوں نے یہ نہیں کہا کہ کیا تم یوسف ہو؟ بلکہ کہا انک اور لانت یوسف یعنی کیا فی الحقیقت تم ہی یوسف ہو؟ اس اسلوب استفہام نے وہ ساری حالتیں واضح کردیں جو ان کے ذہن و فکر پر اس وقت طاری ہوگئی تھیں اور اس طرح کے موقع میں قدرتی طور پر طاری ہوا کرتی ہیں۔ جب بھائیوں نے یوسف کی ہلاکت کی خبر باپ کو سنائی تھی تو خود آلود کرتا جاکر دکھایا تھا، اب وقت آیا کہ زندگی و اقبال کی خوشخبری سنائی جائے تو اس کے لیے بھی کرتے ہی نے نشانی کا کام دیا۔ وہی چیز جو کبھی فراق کا پیام لائی تھی اب وصال کی بشارت بن گئی۔